مودی راج میں معیشت ڈوبتا جہاز، جس سے ہر کوئی نکل کر بھاگ رہا ہے: ماہر اقتصادیات

سابق اقتصادی سکریٹری اروند مایارام نے کہا، ’’آر بی آئی کے بورڈ میں جس طرح کے لوگوں کو حکومت نے لا کر بھر دیا ہے اور جس طرح سے وہ اپنی باتوں کو منوانے پر بضد ہیں وہ ملک کی معیشت کے لئے تشویش ناک ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

بھاشا سنگھ

ملک کی معیشت ایک بھنور میں پھنستی ہوئی نظر آ رہی ہے اور اس کا سیدھا اثر بی جے پی کی ہار کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سوال محض ایک یا دو اداروں کا نہیں بلکہ پورے سسٹم کا ہے۔ گزشتہ ساڑھے چار سال میں سسٹم میں دراڑ آ گئی ہے اور اس کی مار ریزرو بینک آف انڈیا پر پڑ رہی ہے۔ ارجت پٹیل کے استعفی کے بعد سابق اقتصادی سکریٹری اور نوٹ بندی کے پیروکار شکتی کانتا داس کو جس طرح سے مودی حکومت نے آناً فاناً میں نیا گورنر مقرر کیا ہے، اس سے آنے والے دنوں میں آر بی آئی کی خود مختاری کی صورت حال پر قیاس لگائے جا رہے ہیں۔ مرکزی حکومت کے اس فیصلہ سے افسر شاہی میں بھی بے چینی محسوس کی جا رہی ہے۔

ان تمام واقعات کے سلسلہ پر اقتصادی معاملات کے ماہر اور سابق اقتصادی سکریٹری اروند مایارام سے قومی آواز نے تفصیلی بات چیت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح سے آر بی آئی کے گورنر ارجت پٹیل نے استعفی دیا ہے اس نے صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی شبیہ خراب ہوئی ہے۔

اروند مایارام نے کہا کہ لوگ پوچھ ہی رہے ہوں گے کہ آخر آر بی آئی کی ایسی صورت حال کیسے ہو گئی کہ گورنر کے استعفی دینے کی نوبت آ گئی ہے۔ جی-20 نے ایک فنانس اسٹیبلٹی بورڈ بنایا ہے جس میں 20 بڑی طاقتور معیشتوں کے عہدیداران موجود رہتے ہیں اور عاملی اقتصادی سیکورٹی کے حوالہ سے فیصلے لیتے ہیں۔ وہاں رگھو رام راجن جیسے لوگوں کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں سنا جاتا ہے۔ ارجت پٹیل کو بھی دیکھا سنا جاتا تھا لیکن اب تو ہماری وہ پوزیشن نہیں رہے گی۔ اب بین الاقوامی سطح پر آر بی آئی کو حکومت کے پٹھو کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ کہا جائے گا کہ یہ تو وہی کرے گا جو حکومت کہتی ہے۔ اب آپ کی بات میں وزن باقی نہیں رہے گا۔ ادھر بین الاقوامی ریٹنگ کے ادارے ’موڈیز‘ نے بھی ارجت پٹیل کے استعفی پر منفی تبصرہ کیا ہے۔

آر بی آئی کی اگلی بورڈ میٹنگ میں کیا ہوگا اور وہ کتنی آسانی سے مرکزی حکومت کو اپنے خزانے سے مالی امداد دینے کے لئے تیار ہو جائے گا اس پر بھی ماہر اقتصادیات اور افسر شاہوں کی نظر ہے۔ ادھر یکے بعد دیگرے معاشیات سے وابستہ شخصیات کا مودی حکومت سے خود کو علیحدہ کرنا یہ واضح اشارہ ہے کہ مودی حکومت کے دور اقتدار میں معیشت کا جہاز ڈوب رہا ہے اور یہی وجہ ہے سب کنارہ کر رہے ہیں۔

اروند مایا رام نے کہا کہ ایک بات تو صاف ہے کہ تجربہ کاروں کا مودی حکومت کے ساتھ رہنا اب مشکل ترین ہو چلا ہے۔ آر بی آئی میں بھی یہی ہوا، وہاں کے بورڈ میں جس طرح کے لوگوں کو حکومت نے لا کر بھر دیا ہے اور جس طرح سے وہ اپنی باتوں کو منوانے پر بضد ہیں وہ ملک کی معیشت کے لئے تشویش ناک ہے۔

آر بی آئی کے پاس جو ریزرو ہے وہ بحران کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہوتا ہے اور اس کے لئے فیصلہ آر بی آئی کو لینا چاہئے، حکومت کو نہیں۔ دوسری طرف فی الوقت ماحول ایسا بن گیا ہے کہ اگر ہم کچھ بولیں گے تو حکومت ہماری ایک نہیں سنے گی۔ اس طرح کا خوف ہے کہ تمام پیشہ ور لوگ حکومت کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اگر غیر اقتصادی دلائل کی بنیاد پر معیشت کو چلانے کی کوشش کی جائے گی تو کوئی بھی قابل ماہر حکومت کا حصہ کیوں کر بنا رہنا چاہے گا!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Dec 2018, 12:05 AM