ضمنی انتخاب:مایاوتی اور اکھیلیش نے ہاتھ ملایا، بی جے پی کی نیند اڑی

اب یہ طے ہو گیا ہے کہ گورکھ پور اور پھول پور ضمنی انتخابات میں ایس پی اور بی ایس پی مل کر چناؤ لڑیں گے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بی ایس پی نے ایک بڑا فیصلہ لیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ لوک سبھا کے ضمنی انتخابات میں سماجوادی پارٹی کے امیدوار کی حمایت کرے گی جس کا مطلب صاف ہے کہ ان انتخابات میں مایاوتی اور اکھیلیش ساتھ ساتھ ہوں گے۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں اتر پردیش میں ایک عظیم اتحاد بن سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہو تا ہے تو بی جے پی کی نیند اڑنا لازمی ہے۔

الہ آباد کے بی ایس پی کو آرڈینیٹر اشوک کمار گوتم نے اتوار کو ہوئی میٹنگ کے بعد سماجوادی پارٹی کے امید وار ناگیندر سنگھ پٹیل کو حمایت دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو ہرانے کے لئے جیت رہے امیدوار کو بی ایس پی کی حمایت رہے گی۔ اسی کے تحت پارٹی سماجوادی کے امیدوار ناگیندر سنگھ پٹیل کو حمایت دیگی۔

بی ایس پی کی زون سطح کی میٹنگ میں بی ایس پی کے گورکھ پور زون کے انچارج گھنشیام چندر کھروار، سماجوادی پارٹی کے ادے ویر سنگھ اور نشاد پارٹی کے صدر ڈاکٹر سنجے نشاد شامل ہوئے۔ میٹنگ کے بعد رہنماؤں نے گورکھ پور لوک سبھا ضمنی انتخاب میں سماجوادی پارٹی کے امیدوار کو حمایت کا اعلان کیا۔واضح رہے ان انتخاب میں بی ایس پی نے اپنا امیدوار میدان میں نہیں اتارا ہے۔

بی ایس پی سربراہ نے ضلع کوآرڈینیٹروں کو واضح کر دیا ہے۔ حالانکہ اس تعلق سے وہ کوئی اعلان نہیں کریں گی بلکہ ضلع کوآرڈینیٹر اس کا اعلان کریں گے۔

قبل ازیں گورکھ پور میں سماجوادی پارٹی کے امیدوار پروین نشاد نے بی ایس پی سمیت تمام حزب احتلاف کی جماعتوں کی حمایت کا دعویٰ کیا۔ بی ایس پی کے حمایت دینے کی خبروں کے بیچ سماجوادی پارٹی کے رہنما سنیل سنگھ یادو نے کہا ’’میں جانتا ہوں کہ بی ایس پی ضمنی انتخاب نہیں لڑے گی۔ دونوں جگہوں پر جہاں ضمنی انتخاب ہونے ہیں ، سماجوادی پارٹی بی جے پی کو کڑی ٹکر دینے والی ہے۔ ‘‘

مبصرین کے مطابق دونوں پارٹیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ آنے پر پسماندہ، دلت اور مسلمانوں کا بہترین ' کمبی نیشن ' بنے گا،ان تینوں کی آبادی ریاست میں تقریبا 70 فیصد ہے۔ تینوں ایک پلیٹ فارم پر آ جائیں گے تو بی جے پی کے لیے مشکل ہو سکتی ہے۔سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی ایس پی کو ایک بھی سیٹ نہیں حاصل ہوئی تھی، جبکہ ایس پی کومحض پانچ سیٹوں پر قناعت کرنا پڑا تھا۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی صرف 47 سیٹوں پر جیتی تھی جبکہ بی ایس پی 19 سیٹوں پر ہی سمٹ گئی تھی۔ اتر پردیش اسمبلی میں کل 403 اور لوک سبھا کی 80 نشستیں ہیں۔

30 اکتوبر اور 2نومبر 1990 کو اجودھیا میں ہونے والی فائرنگ کے بعداس وقت کے وزیر اعلی ملائم سنگھ یادو کی کافی شرمندگی ہوئی تھی۔ اس کے کچھ ماہ بعد 1991 میں ہوئے اسمبلی کے انتخابات میں مسٹر یادو کو زبردست شکست ملی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ریاست میں پہلی بار حکومت بنائی تھی۔ کلیان سنگھ کو وزیر اعلی بنایا گیا تھا۔
چھ دسمبر 1992 کو کارسیوکوں نے متنازعہ ڈھانچہ مسمار کر دیا تھا۔ کلیان سنگھ حکومت برطرف کر دی گئی تھی۔ 1993 میں بی ایس پی کے اس وقت کے صدر کانشی رام اور ملائم سنگھ یادو کی پارٹی سماجوادی پارٹی نے مل کر الیکشن لڑا۔ اس کا نتیجہ رہا کہ 1993 میں ایس پی-بی ایس پی اتحاد نے حکومت بنائی اور ملائم سنگھ یادو وزیر اعلی چنے گئے۔حکومت قریب ڈیڑھ سال چلی کہ اسی درمیان دو جون 1995 کو لکھنؤ میں اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس سانحہ ہو گیا۔ بی ایس پی صدر مایاوتی کے ساتھ سماجوادی پارٹی کارکنوں نے بدسلوکی کی تھی۔ اتحاد ٹوٹ گیا اور بی جے پی کے تعاون سے مایاوتی پہلی بار وزیر اعلی بن گئیں۔ تب ہی سے ایس پی اور بی ایس پی کے تعلقات تقریباً نہ کر برابر ہی رہے۔
لوک سبھا کی دو سیٹوں پر ہو رہے ضمنی انتخابات میں اگر بی ایس پی،ایس پی کی حمایت کرتی ہے تو ریاست کی سیاست میں اس کے دور رس نتائج ہونے کا امکان ہے۔ سیاسی امور کے ماہر راجندر پرتاپ سنگھ کا کہنا ہے کہ بی ایس پی ضمنی انتخابات میں اپنے امیدوار نہیں کھڑا کرتی ہے، اورا ضمنی انتخابات میں اگر بی ایس پی ،ایس پی کو حمایت دیتی ہے تو ابھی سے اس کا یہ مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے کہ 2019 میں دونوں پارٹیاں ایک ساتھ رہ سکتی ہیں۔

(یو این آئی ان پٹ کے ساتھ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔