’اے آئی‘ چاہے چینی کے ہاتھ میں ہو یا امریکی کے، یہ ایک خطرناک شئے ہے: دہلی ہائی کورٹ
عرضی دہندہ کے وکیل نے عدالت سے اس معاملے میں اتھارٹی کو نوٹس جاری کرنے کی گزارش کی ہے۔ مرکز کے وکیل نے جواب دینے کے لیے وقت مانگا ہے۔ معاملے کی اگلی سماعت 20 فروری کو ہوگی۔

دہلی ہائی کورٹ نے ایک معاملے پر سماعت کرتے ہوئے 12 فروری (بدھ) کو کہا کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کسی کے بھی ہاتھ میں ایک خطرناک شئے ہے، چاہے وہ چینی ہو یا امریکی ہو۔ ہائی کورٹ نے یہ تبصرہ اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کیا ہے جس میں مرکز کو چینی کمپنی کے ذریعہ تیار اے آئی چَیٹ باٹ 'ڈیپ سیک' کی ہندوستان میں سبھی شکل میں رسائی پر پابندی لگانے کی ہدایت دینے کی گزارش کی گئی ہے۔
عرضی پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے اور جسٹس تشار راؤ گیڈیلا کی بنچ نے کہا، "اے آئی کسی کے بھی ہاتھ میں ایک خطرناک چیز ہے، چاہے وہ چینی ہو یا امریکی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت ان چیزوں سے لاعلم ہے۔ وہ بہت اچھی طرح سے واقف ہے۔"
عرضی دہندہ کے وکیل نے عدالت سے اس معاملے میں اتھارٹی کو نوٹس جاری کرنے کی گزارش کرتے ہوئے کہا کہ سیدھے طور پر یہ رازداری کے حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ہے۔ مرکز کے وکیل نے کہا کہ اس معاملے پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور انہوں نے عدالت سے معاملے میں ہدایت حاصل کرنے کے لیے کچھ وقت دینے کی گزارش کی ہے۔ عدالت نے اس معاملے کی اگلی سماعت 20 فروری طے کی ہے۔
واضح رہے کہ یہ عرضی وکیل بھاؤنا شرما نے داخل کی ہے۔ اس عرضی کا مقصد ہندوستان کے شہریوں کو ذاتی ڈیٹا کے ساتھ ساتھ سرکاری سسٹم اور ٹولس میں موجود ڈیٹا کو سائبر حملوں سے اور ڈیٹا خلاف ورزی سے بچانا ہے۔ عرضی میں سرکاری ڈیٹا اور دستاویزوں کی پرائیوسی کو بنائے رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عرضی میں آگے بتایا گیا ہے کہ الگ الگ پلے اسٹور پر ڈیپ سیک ایپلی کیشن کے لانچ ہونے کے ایک مہینے کے اندر ہی ایپ میں کئی کمزوریاں پائی گئی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔