اے آئی کی غلطی سے 22 کروڑ کا ٹیکس نوٹس ہوا بے اثر، بامبے ہائی کورٹ نے لگائی پھٹکار
عدالت نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کے آرٹیفیشیل انٹلیجنس (اے آئی) والے دور میں لوگ سسٹم کے ذریعہ پیش کردہ ریزلٹ پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کرنے لگے ہیں۔

ممبئی میں ایک ٹیکس پیئر کو انکم ٹیکس محکمہ نے تقریباً 22 کروڑ روپے کی اضافی آمدنی دکھا کر بڑا ٹیکس نوٹس بھیجا تھا۔ یہ نوٹس اس وقت جاری کیا گیا جب اے او (اسیسنگ افسر) نے ٹیکس دہندہ کی اعلان کردہ آمدنی 3.09 کروڑ روپے سے بڑھا کر 27.91 کروڑ روپے کر دی۔ یہ کارروائی انکم ٹیکس ایکٹ کی دفعہ (3)143 کے ساتھ دفعہ 144بی کے تحت کی گئی تھی۔ لیکن ٹیکس دہندہ نے اس حکم کو بامبے ہائی کورٹ میں چیلنج پیش کر دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ نہ صرف طریقۂ کار غلط تھا، بلکہ ٹیکس محکمہ نے کچھ ایسے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا جو وجود میں ہی نہیں تھے۔
بامبے ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران یہ سامنے آیا کہ ٹیکس افسر نے 3 ایسے فیصلوں کا ذکر کیا جو کسی بھی قانونی ریکارڈ میں موجود نہیں تھے۔ عدالت کو شبہ ہوا کہ یہ فیصلے غالباً اے آئی ٹول یا سسٹم کے ذریعہ جنریٹ کی گئی غلط جانکاری پر مبنی تھے۔ عدالت نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کے آرٹیفیشیل انٹلیجنس (مصنوعی ذہانت) کے دور میں لوگ سسٹم کے ذریعہ دیے گئے ریزلٹ پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کرنے لگے ہیں۔ لیکن جب کوئی افسر نیم عدالتی ذمہ داری نبھا رہا ہو، تو اسے کسی بھی ریزلٹ پر بھروسہ کرنے سے پہلے اس کی سچائی کی تصدیق ضرور کرنی چاہیے۔
ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ ٹیکس پیئر کے سپلایر نے سیکشن (6)133 کے تحت بھیجے گئے نوٹس کا جواب نہیں دیا تھا، اس لیے خریداری کو فرضی مان کر 2.16 کروڑ روپے کی رقم بڑھائی گئی۔ لیکن کورٹ کے ریکارڈ سے پتہ چلا کہ سپلایر نے سبھی ضروری دستاویز، مثلاً انوائس، ای-وے بل، ٹرانسپورٹ رسید اور جی ایس ٹی ریٹرن سمیت جواب وقت پر جمع کیا تھا۔ یعنی اتنا اہم ثبوت ہونے کے باوجود محکمہ نے اسے پوری طرح نظر انداز کر دیا۔
دوسرا بڑا ایشو ڈائریکٹرس سے لیے گئے انسکیورڈ قرض کا تھا، جس میں ڈپارٹمنٹ نے ’پیک بیلنس‘ کی بنیاد پر تقریباً 22 کروڑ روپے کا اضافہ کر دیا۔ عدالت نے اخذ کیا کہ ٹیکس دہندہ کو اس شماریات کی کوئی بنیاد یا ورکنگ نہیں بتائی گئی، اور نہ ہی کوئی وجہ بتاؤ نوٹس دیا گیا۔ اس سے ٹیکس دہندہ کو اپنی بات رکھنے کا موقع ہی نہیں ملا، جو کہ فطری انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔
بامبے ہائی کورٹ نے اس پورے معاملے کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ یہ عمل پر مبنی غیر جانبداری کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس لیے عدالت نے آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے ذریعہ جاری اسسمنٹ آرڈر، ڈیمانڈ نوٹس اور پنالٹی شو کاؤز نوٹس تینوں کو رَد کر دیا۔ ساتھ ہی عدالت نے محکمہ کو ہدایت دی کہ وہ نیا اور شفاف وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرے، ٹیکس دہندہ کو ذاتی طور پر سماعت کا موقع دے اور کسی بھی فیصلہ کا حوالہ دینے سے پہلے اس کی حقیقت کی جانچ کرے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔