احمد آباد طیارہ حادثہ: کسی کی بہن تو کسی کی بیٹی جا رہی تھی لندن، اسپتال کے باہر بدحواس گھوم رہے رشتہ دار
حادثہ میں ہلاک یا زخمی لوگوں کی ابھی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ اپنوں کو تلاش کر رہے لوگوں کی فکر بڑھ گئی ہے۔ ہر کسی کی نظریں اسپتال کے دروازے پر مرکوز ہیں۔

ایئر انڈیا کے طیارہ حادثہ نے کئی کنبوں کو گہرے غم کے سمندر میں غرق کر دیا ہے۔ لندن جا رہے ایئر انڈیا کے طیارہ نمبر اے آئی-171 میں سوار 200 سے زائد مسافروں کی لاشیں برآمد کر لی گئی ہیں، لیکن بہت کم ایسے لوگ ہیں جن کی شناخت کی گئی ہے، اور اس بارے میں بھی ابھی آفیشیل جانکاری نہیں دی گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کئی مسافروں کے رشتہ دار احمد آباد کے سول اسپتال میں بدحواس اِدھر اُدھر بھاگتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کسی کی بہن تو کسی کی بیٹی لندن جا رہی تھی، اور کچھ تو پہلی بار ہوائی جہاز کا سفر کر رہے تھے۔
اس وقت احمد آباد کے سول اسپتال میں موجود سبھی کے چہرے پر تناؤ اور بے چینی والی حالت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ لوگ اپنوں کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ اسپتال انتظامیہ سے کوئی پختہ جانکاری نہیں مل پانے کی وجہ سے رشتہ دار پریشان ہیں۔ اسپتال احاطہ کے باہر بڑی تعداد میں لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ اندر سے کوئی اچھی خبر سامنے آئے۔ ہر کسی کی نظریں اسپتال کے دروازے پر مرکوز ہیں، ہر کوئی اپنوں کی جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کئی لوگ تو اسپتال کے باہر روتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
سول اسپتال کے باہر موجود ایک خاتون نے میڈیا کو بتایا کہ وہ حادثہ زدہ طیارہ میں سوار ایک مسافر کی پڑوسی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میری پڑوسن کی بیٹی اس فلائٹ میں تھی۔ اب تک اس کا کچھ بھی پتہ نہیں چلا ہے۔ ہمیں اندر جانے کی اجازت بھی نہیں مل رہی ہے۔‘‘ اسپتال کے باہر ہی موجود ایک شخص بھی پریشان حال دکھائی پڑتا ہے۔ وہ نم آنکھوں کے ساتھ کہتا ہے کہ ’’میری بہن اور بہنوئی دونوں فلائٹ میں تھے۔ انھیں اپنی بیٹی سے ملاقات کے لیے لندن جانا تھا۔ میری بھانجی نے لندن سے فون کیا اور بتایا کہ اس کے ممی پاپا اسی فلائٹ میں تھے۔ میں فوراً یہاں بھاگا آیا، لیکن ہمیں اندر جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔‘‘
اس طیارہ حادثہ نے آنکھیں نم کر دینے والی کئی داستانیں پیچھے چھوڑ دی ہیں۔ 21 سالہ خوشبو نامی ایک نئی نویلی دلہن بھی اس طیارہ میں سوار تھی جو لندن اپنے شوہر کے پاس جا رہی تھی۔ خوشبو کی شادی جنوری 2025 میں ہی ہوئی تھی اور پہلی مرتبہ وہ طیارہ سے شوہر ڈاکٹر ویپل کے پاس جا رہی تھی۔ ڈاکٹر ویپل لندن میں رہ کر پریکٹس کرتے ہیں۔ شادی کے بعد خوشبو کو چھوڑ کر ویپل لندن لوٹ گئے تھے۔ خوشبو کچھ دنوں مائیکہ اور سسرال میں رہنے کے بعد پہلی مرتبہ بیرون ملک شوہر کے پاس جا رہی تھی، لیکن وہ لندن نہیں پہنچ سکی۔ افسوسناک یہ ہے کہ خوشبو کے والد نے ایئرپورٹ پر اسے وداع کرتے وقت ایک جذباتی تصویر کھنچوائی تھی، اب وہ تصویر انھیں ہمیشہ رلاتی رہے گی۔ اس تصویر کے ساتھ انھوں نے واٹس ایپ اسٹیٹس بھی لگایا تھا، جس میں لکھا تھا ’’آشیرواد خوشبو بیٹا، گوئنگ ٹو لندن۔‘‘ بیٹی کو وداع کہنے کے بعد والد مدن سنگھ گھر کے لیے نکل ہی رہے تھے کہ حادثے کی خبر نے انھیں توڑ کر رکھ دیا۔
کچھ ایسی ہی درد بھری کہانی ڈاکٹر پرتیک اور ان کی ڈاکٹر بیوی کونی ویاس کی سامنے آ رہی ہے۔ ایک ماہ قبل ہی ڈاکٹر پرتیک لندن گئے تھے۔ گھر میں ان کی ڈاکٹر بیوی کونی 3 بچوں کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ پہلے دونوں ایک ہی اسپتال میں کام کرتے تھے۔ گھر سے ساتھ میں آنا جانا ہوتا تھا، لیکن پرتیک جب لندن چلے گئے تو کونی کو تنہائی پریشان کرنے لگی۔ پھر قسمت نے ایسا ساتھ دیا کہ برطانیہ کے جس اسپتال میں پرتیک کا ایک ماہ قبل سلیکشن ہوا تھا، وہیں پر کونی بھی ڈاکٹر بن گئیں۔ یعنی پھر دونوں میاں بیوی کے ساتھ رہنے کا راستہ ہموار ہو گیا۔ پرتیک اپنی بیوی اور بچوں کو لینے کے لیے گھر آئے، سامان پیک کیا اور والدین کی دعائیں لے کر ایئر انڈیا کے طیارہ میں سوار ہو گئے۔ لیکن طیارہ پرواز بھرنے کے ساتھ ہی دھماکہ کا شکار ہو گیا۔ اس دھماکہ نے شوہر-بیوی اور تینوں بچوں کی زندگیاں بھی ختم کر دیں۔ اب ایک درد رہ گیا ہے جو ہمیشہ پرتیک اور کونی کے گھر والوں کو ٹیس پہنچاتا رہے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔