احمد آباد طیارہ حادثہ: چھ ماہ بعد بھی سوال برقرار، متاثرہ خاندانوں کے وکیل نے بیان کی تحقیقات کی پیش رفت

احمد آباد طیارہ حادثے کو چھ ماہ گزرنے کے باوجود تحقیقات جاری ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کے وکیل کے مطابق برقی خرابی کا امکان زیرِ غور ہے اور حتمی نتائج سے پہلے کلیم پر دستخط مناسب نہیں

<div class="paragraphs"><p>احمد آباد میں طیارہ حادثہ کا مقام / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: گجرات کے احمد آباد میں پیش آئے ایئر انڈیا طیارہ حادثے کو چھ ماہ مکمل ہو چکے ہیں مگر متاثرہ خاندانوں کے لیے سوالات اب بھی وہیں کے وہیں ہیں۔ اس موقع پر متاثرہ خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے امریکی وکیل مائیک اینڈریو نے وڈودرا میں آئی اے این ایس سے خصوصی گفتگو میں اب تک ہونے والی تحقیقات اور سامنے آنے والی معلومات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

مائیک اینڈریو کے مطابق، چھ ماہ گزرنے کے باوجود خاندان یہی جاننا چاہتے ہیں کہ حادثہ آخر ہوا کیسے اور اس کے پیچھے اصل وجہ کیا تھی۔ ان کے بقول، خاندان اپنے صدمے سے سنبھلنے کی کوشش کر رہے ہیں، ساتھ ہی اس معاوضے کے منتظر ہیں جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا، اور حادثے کے مقام سے جمع کیے گئے ذاتی سامان کی واپسی بھی چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خاندانوں کے ذہنوں میں اب بھی بے شمار سوالات ہیں اور ان کا مقصد انہی سوالوں کے جواب تلاش کرنا اور اس پورے عمل میں متاثرین کی رہنمائی کرنا ہے۔


امریکی وکیل نے بتایا کہ حال ہی میں ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو (اے اے آئی بی) کے تفتیش کار نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ کے ساتھ واشنگٹن میں کاک پٹ وائس ریکارڈر اور فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر کا جائزہ لے رہے تھے۔ ان کے مطابق یہ پیش رفت اس لیے اہم ہے کیونکہ ابتدائی طور پر بعض حلقوں میں حادثے کے حوالے سے خودکشی کے امکان پر بھی بات کی گئی تھی، جس پر وہ ابتدا سے ہی مطمئن نہیں تھے۔

اینڈریو نے کہا کہ اگر کاک پٹ وائس ریکارڈر میں سب کچھ بالکل واضح ہوتا تو تفتیش کاروں کو ڈیٹا دیکھنے کے لیے واشنگٹن جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ انہوں نے طیارے میں ممکنہ برقی خرابی (الیکٹریکل پرابلم) کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ریم ایئر ٹربائن (آر اے ٹی) کا ٹیک آف کے فوراً بعد فعال ہو جانا معمول کی بات نہیں ہے اور یہ کسی اندرونی خرابی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ان کے مطابق، ایک زندہ بچ جانے والے کے بیان میں کیبن لائٹس کے بند اور دوبارہ روشن ہونے کا ذکر بھی ممکنہ برقی خرابی کی نشاندہی کرتا ہے۔ وکیل نے بتایا کہ وہ بوئنگ 787 طیاروں کی ماضی کی تاریخ کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ آیا موجودہ حادثہ ان برقی مسائل سے جڑا ہے جن کے بارے میں انڈسٹری میں برسوں پہلے آگاہی ہو چکی تھی۔

مائیک اینڈریو نے یہ بھی واضح کیا کہ بعض خاندانوں پر معاوضے کے بدلے دستاویزات پر دستخط کرنے کا دباؤ ڈالے جانے کی باتیں سامنے آئی ہیں، مگر جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں، کسی بھی قسم کے کلیم ریلیز پر دستخط کرنا مناسب نہیں ہوگا، کیونکہ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ حادثے کی اصل وجہ کیا تھی۔