طلاق ثلاثہ کے بعد اب ایک سے زیادہ شادی اور متعہ پر سیاست شروع

مسلم عوام پرسنل لاء بورڈ اور مسلم علماء سے اس بات پر ناراض ہیں کہ وہ اپنے مذہبی معاملات میں وقت رہتے اصلاح کیوں نہیں کرتے اور کیوں مخالفین کو مداخلت کے لئے مواقع فراہم کرتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

ایک طرف عدالت عظمیٰ کے ذریعہ مسلمانوں میں ایک سے زیادہ شادی،نکاح متعہ، حلالہ اور مسیار کے خلاف داخل عرضی پر مرکزی حکومت سے جواب مانگا گیا ہے تو دوسری جانب مسلم طبقہ میں زبردست گہما گہمی شروع ہو گئی ہے۔ ایک مرتبہ پھر مسلم عوام پرسنل لاء بورڈ اور مسلم علماء سے اس بات کو لے کر ناراض نظر آ رہے ہیں کہ وہ اپنے مذہبی معاملات میں وقت رہتے اصلاح کیوں نہیں کرتے اور کیوں مخالفین، عدلیہ اور حکومت کو مداخلت کے لئے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ایسے مسلم مرد و خواتین بھی ہیں جو اسلامی شریعت میں نہ ہی مرکزی حکومت کی دخل اندازی پسند کر رہے ہیں اور نہ ہی اس معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقلیتی طبقہ سے جڑا ہوا مسئلہ ہے اور اگر کچھ غلط ہو رہا ہے تو اس کا حل بڑے علمائے کرام آپس میں بیٹھ کر متفقہ طور پر نکالیں۔ دوسری جانب میڈیا میں کچھ مسلم خواتین تین طلاق کی طرح ہی ایک سے زیادہ شادی، نکاح متعہ، حلالہ اور مسیار کے خلاف آواز اٹھاتی ہوئی نظر آ رہی ہیں یعنی بی جے پی سیاست کے لئے ایک اور ایشو۔

اس سلسلے میں جب ’قومی آواز‘ نے اقلیتی طبقہ کے باشعور ہستیوں سے رائے جاننے کی کوشش کی تو ایک چیزپر سبھی متفق نظر آئے، اور وہ یہ کہ تین طلاق کا معاملہ ہو یا ایک سے زیادہ شادی کا، یا پھر حلالہ، یہ سب مسلمانوں کو رسوا اور دوسرے درجے کا شہری قرار دینے کی کوشش ہے۔ کچھ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ عدالت شرعی مسائل کا حل مسلمانوں کو ہی نکالنے دیں۔ معروف سماجی کارکن شبنم ہاشمی مسلم طبقہ میں ایک سے زیادہ شادی کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’میں اس کے سخت خلاف ہوں، لیکن ایک سے زیادہ شادی تو جین اور ہندوؤں میں مسلمانوں سے زیادہ رائج ہے، ہم ان کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے۔‘‘

سماجی کارکن زلیخا جبیں اس سلسلے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’مسلمانوں میں ایک سے زیادہ شادی کا ہنگامہ بہت ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ ہمارے ملک میں ایک سے زیادہ شادی کرنے کے معاملے میں پہلے مقام پر ہندو ہیں اور مسلمانوں کا نمبر چوتھا یا پانچواں ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ ’’تین طلاق بل یا پھر کثیر شادی، حلالہ، متعہ وغیرہ کے تعلق سے جو عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے، یہ سب مسلمانوں کو توڑنے، ذلیل کرنے اور اوقات بتانے کی کوشش ہے۔‘‘ زلیخا جبیں نے بات چیت کے دوران اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ ’’ہر تیسرا غیر مسلم دو سے زیادہ بیوی رکھے ہوئے ہے۔ گورنمنٹ آفیسر کو ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن میں خود مشاہدہ کر رہی ہوں کہ ایک شخص الگ الگ مقامات پر دو دو یا تین تین بیویاں غیر قانونی طریقے سے رکھے ہوئے ہے۔‘‘

فتح پوری مسجد کے شاہی امام مولانا مفتی مکرم نے تعدد ازواج سے متعلق اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام میں چار شادیاں اس لیے ہیں کہ کوئی بیوہ، مطلقہ اور مجبور عورت کسی گناہ میں مبتلا نہ ہو جائے اور اس کی کفالت ہو سکے۔ ایک سے زیادہ شادی عیش پرستی کے لیے نہیں ہے۔‘‘ شبنم ہاشمی کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ’’ہم اکیسویں صدی میں ہیں جہاں خواتین کو برابری کا حق دینے کی بات ہو رہی ہے۔ ایسی صورت میں کسی بیوہ اور مطلقہ عورت کے جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہیےاور کوئی بھی عورت چاہے وہ مطلقہ ہو، بیوہ ہو یا باقرہ، دوسری بیوی بننا پسند نہیں کرتی۔‘‘ انھوں نے مزید وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’خواتین کا جنسی تناسب کم ہے پھر مرد ایک سے زیادہ بیویاں کیوں رکھتےہیں؟ مسلمان ہو یا ہندو یا پھر کسی اور مذہب کا، مرد کے لیے ایک سے زیادہ شادی کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔‘‘

نکاح حلالہ اور نکاح مسیار جسے معاملوں کے خلاف عدالت میں عرضی داخل کیے جانے پرمفتی مکرم نے حیرانی ظاہر کی اور کہا کہ ’’یہ سب بہت چھوٹے معاملے ہیں اور ناسمجھ لوگ اس طرح کے ایشوز کو اٹھا کر غلطی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ نہ ہی کوئی نکاح حلالہ کو درست قرار دے سکتا ہے اور نہ ہی نکاح مسیار جیسی چیز کے حق میں بات ہو سکتی ہے۔ دراصل کچھ لوگوں نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے اوراقلیتی طبقہ کو بلاوجہ کی باتوں میں الجھا کر رکھا جا رہا ہے۔‘‘ تین طلاق کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’اس مسئلہ کا حل ضرور نکلنا چاہیے اور تین طلاق کو ختم کیا جانا چاہیے لیکن اس کے لیے بڑے بڑے علماء پروگرام کریں، اجتماع منعقد کریں اور ایک متفقہ فیصلہ کریں جس پر امت مسلمہ عمل پیرا ہو۔‘‘ مفتی مکرم نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمانوں میں جاہلیت بہت زیادہ ہے۔ ہر آدمی یہی سمجھتا ہے کہ تین طلاق سے کم میں طلاق ہی نہیں ہوتی۔ اس معاملے میں باضابطہ تبلیغ کا کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طلاق اور ان جیسے ایشوز کی حقیقت سے مسلمانوں کو آشنا کیا جا سکے۔ مسلمانوں میں زبردست اصلاح کی ضرورت ہے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسی تنظیموں کو آگے بڑھ کر کام کرنا چاہیے۔‘‘

جہاں تک نکاح متعہ کا معاملہ ہے، شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نے عرضی داخل کرنے والوں کی پرزور تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’جنھوں نے عدالت میں عرضی دی ہے ان پر ضرور دباؤ بنایا گیا ہوگا، اور کچھ لوگ صرف نام کے مسلمان بھی ہوتے ہیں جو اسلام کے خلاف ہی سازش کرتے ہیں۔‘‘ نکاح متعہ کے متعلق مولانا کلب جواد کہتے ہیں کہ ’’جب لیو اِن رلیشن شپ کو قانونی بنایا جا رہا ہے تو پھر نکاح متعہ کے خلاف آواز کیوں اٹھائی جا رہی ہے۔ لیو اِن رلیشن شپ تو لڑکا اور لڑکی کا ناجائز طریقے سے ساتھ میں رہنے کا عمل ہے اور نکاح متعہ میں تو باضابطہ لڑکا اور لڑکی کے اہل خانہ شامل ہوتے ہیں اور ایک جائز عمل ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’دنیا میں جب لڑکی کی شادی لڑکی سے اور لڑکے کی شادی لڑکے سے کرنے کے غیر قدرتی رشتہ کو قانونی جامہ پہنانے کی بات کی جا رہی ہے تو پھر باضابطہ نکاح کر کے قدرتی رشتہ رکھنا کس طرح جرم ہو سکتا ہے۔‘‘ مولانا کلب جواد نے اس سلسلے میں عدالت سے گزارش کی کہ وہ شرعی قانون کو توجہ میں رکھ کر کوئی بھی قدم اٹھائے اور یہ بھی دھیان دیا جائے کہ جب ناجائز رشتوں کو جائز بنانے کے لیے قانون بن رہے ہیں تو جائز رشتوں کو منع کس طرح کیا جا سکتا ہے۔

تین طلاق کا معاملہ ہو یا حلالہ کا، نکاح متعہ کا معاملہ ہو یا مسیار کا یا پھر ایک سے زیادہ شادی کا، یقیناً یہ مسائل ایسے نہیں ہیں جس پر مرکزی حکومت کوئی رائے دے، یہ کسی طرح سے سیاسی معاملہ بھی نہیں ہے۔ لیکن اقلیتی طبقہ کے انہیں چھوٹے چھوٹے مسائل پر سب سے زیادہ سیاست ہو رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اقلیتی طبقہ کے جو لوگ تین طلاق، حلالہ اور تعدد ازواج کے خلاف ہیں، وہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اس پر پابندی ضرور لگنی چاہیے لیکن اس ایشو کو غلط طریقے سے اٹھایا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Mar 2018, 6:09 PM