نوٹ بندی: ڈیجیٹل پیمنٹ فیل، دوبارہ نقد کاروبار کا بول بالا

گزشتہ سال 8 نومبر کی شب 8 بجے وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کے عوام کو خطاب کرتے ہوئے نوٹ بندی کا اعلان کیا تھا۔ وزیر اعظم کے اعلان کے ساتھ ملک بھر میں افرا تفری کا عالم پیدا ہو گیا تھا۔ لوگ اے ٹی ایم کی طرف بھاگتے دوڑتے ہوئے نظر آنے لگے تھے۔ یہ صورت حال ایک دو دن یا ہفتہ بھر نہیں رہی بلکہ لگاتار کئی مہینوں تک پورے ملک میں یہی عالم رہا۔ اے ٹی ایم پر لوگوں کی زبردست بھیڑ، لمبی لمبی لائنیں، اپنی باری کو لے کر لڑائی جھگڑے، پولس کا ڈنڈے برسانا، ہر شہر میں یہی نظارہ عام تھا۔
ضرورت کے مطابق بینکوں میں نئے نوٹ نہیں تھے اور بازار میں بھی نوٹوں کی زبردست کمی تھی۔ چھوٹے موٹے کاروباریوں کی تجارت بری طرح متاثر ہو گئی تھی۔ حکومت نے نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے ڈیجیٹل لین دین کو فروغ ملے گا جس سے کالے دھن پر روک لگے گی۔ چھوٹے بڑے دکاندار نقد کی کمی کی وجہ سے موبائل والیٹ اور سوائپ مشین کا استعمال کرنے لگے۔

لوگوں کی جیب اور بینکوں میں نقد کی عدم دستیابی کے سبب آن لائن پیمنٹ ایپ کے استعمال میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا۔ ان میں ’پے ٹی ایم‘ کا ایپ ہر گلی اور نکڑ، یہاں تک کہ ٹھیلے اور فٹ پاتھوں پر بھی نظر آنے لگا۔ کاروباری لین دین سے لے کر روز مرہ کے گھریلو سامانوں کی خرید و فروخت میں بھی آن لائن پیمنٹ ایپ کا استعمال ہونے لگا۔ حالانکہ ان دنوں پیمنٹ سے متعلق کئی دقتیں بھی آئیں لیکن مجبوری میں لوگ انہیں پیمنٹ ایپ پر منحصر رہے۔
لیکن چار پانچ مہینوں کےبعد جیسے ہی بازار میں نقد کی دستیابی بڑھی، ویسے ہی آن لائن پیمنٹ کے استعمال میں کمی آنے لگی۔ اب ایک سال مکمل ہونے پر خوردہ بازار پوری طرح سے نقد پر لوٹ آیا ہے۔ یہاں تک کہ تھوک بازار میں بھی زیادہ تر کاروبار نقد کے ذریعہ ہی ہو رہے ہیں۔ مقامی بازاروں میں آن لائن پیمنٹ ایپ تقریباً غائب نظر آرہے ہیں۔ کہیں کہیں آن لائن ادائیگی پر 2 فیصد وصولے جانے کی وجہ سے بھی صارفین اس سے دور بھاگنے لگے ہیں۔ کاروباری اور دکاندار بھی جھنجھٹ سے بچنے کے لیے آن لائن کی جگہ نقد ادائیگی کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔

دہلی کے چاندنی چوک میں ڈیزائنر کپڑوں کی دکان چلانے والے پریتم شرما نے اس سلسلے میں بتایا کہ نقد سے کاروبار کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہمارے بزنس میں آن لائن اور چیک سے لین دین کرنا مشکل ہے۔ بینک کا جھنجھٹ، پیمنٹ گیا کہ نہیں یہ دیکھنا ایک طرح کی پریشانی کھڑی کرتا ہے۔‘‘
چاندنی چوک علاقے میں ہی پان مسالہ کے تھوک کاروباری محمد الیاس کہتے ہیں کہ ’’آن لائن پیمنٹ سے کوئی دقت نہیں ہے، لیکن ہمارے کاروبار میں اس قدر لین دین ہوتا ہے کہ آن لائن بھی بیٹھ جائے گا۔ دکان کھلنے کے ساتھ کاؤنٹر پر ہر وقت 12 سے 15 گاہک کھڑے رہتے ہیں۔ کوئی 200 روپے کا سامان لیتا ہے تو کوئی 20000 سے 50000 روپے تک کا سامان لیتا ہے۔ ایسے میں ہم کس طرح آن لائن پیمنٹ کا کاروبار کر سکتے ہیں۔ نقد کے بغیر تو یہاں کاروبار ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘

آن لائن پیمنٹ کی ادائیگی میں دھوکہ دہی کے امکانات کی وجہ سے بھی اس کے استعمال میں کمی آئی ہے۔ لیکن سب سے بڑی وجہ ہندوستانی بازار کا بہت حد تک نقد پر منحصر ہونا ہے۔
ہندوستانی سماج کی طرح یہاں کے بازار اور صارفین بھی الگ الگ طرح کے ہوتے ہیں۔ ایسے میں سبھی کو ایک ہی رنگ میں رنگنا یا ایک ہی راستہ پر چلانا مشکل ہے۔ ابھی تو پورے ملک میں بجلی تک نہیں پہنچ پائی ہے تو ڈیجیٹل پیمنٹ کا تصور ہم کس طرح کر سکتے ہیں؟
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔