شاہ کی زبان بتا رہی ہے کہ زمین کھسک رہی ہے 

ممبئی میں بی جے پی کے یومِ تاسیس کی تقریب یوں تو امت شاہ کے لیے اور ان کی پارٹی کے لیے جشن کا موقع تھی لیکن انھوں نے اسے اقتدار کے گھمنڈ کا مظاہرہ کرنے والا اسٹیج بنا دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تسلیم خان

بی جے پی کے یومِ تاسیس پر امت شاہ نے جس زبان کا استعمال کیا اس کو نہ تو مہذب سماج کی زبان کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی شعور والی زبان۔ اپنی زبان میں اخلاقیات سے کنارہ کشی اختیار کر کے انھوں نے نہ صرف اپنی اصلی شکل کا مظاہرہ کیا بلکہ اس گھبراہٹ کی جانب بھی اشارہ دیا ہے جس سے ان کی پارٹی اور مودی حکومت پریشان ہے۔ جمہوریت میں مخالفین پر نشانہ سادھنے کے لیے بھی زبان کے توازن اور الفاظ کے انتخاب کا خیال رکھنے کی روایت رہی ہے، لیکن حال اور مستقبل کو ماضی کی طرف دھکیلنے کی کوشش میں امت شاہ سبھی حدود پارگئے۔

ممبئی میں بی جے پی کے یومِ تاسیس کی تقریب میں یوں تو ان کے لیے اور ان کی پارٹی کے لیے جشن کا موقع تھا، لیکن انھوں نے اسے اقتدار کے گھمنڈ کا مظاہرہ کرنے والا اسٹیج بنا لیا۔ اپنے ’سیاسی گرو‘ وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف میں ان کی عقل نے شاید کام ہی کرنا بند کر دیا۔ اسی لیے انھوں نے اپوزیشن کو ’کتا، بلی، سانپ، چھچھوندر‘ سب کچھ کہہ ڈالا۔ لیکن اس میں برا ماننے کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ شاگرد وہی زبان استعمال کرتا ہے جو و ہ اپنے گرو (استاد) سے سیکھتا ہے اور ایک مرتبہ ان کے گرو نے مسلمانو ں کی تشبیہ ’کتے کے پلے‘ سے کی تھی ۔

امت شاہ کے یہ الفاظ اور ان کے انداز سے صاف نظر آتا ہے کہ آنے والے وقت سے متعلق ان کے ذہن میں کتنی غیریقینی ہے اور وہ کتنے پریشان ہیں ۔ جس پارٹی کی مکمل اکثریت کے ساتھ مرکز میں حکومت ہو اس کے قومی صدر کا حوصلہ، ان کی نرم مزاجی، اخلاقیات وغیرہ کی عکاسی ان کے زبان اور تقریر کے انداز سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ سبھی عناصر امت شاہ میں نظر نہیں آتے۔

آیوروید کی مشہور کتاب چرک کو لکھنے والے مہرشی پنروسو نے ایک بار اپنے شاگرد اگنیویش سے کہا تھا ’’وناش کالے وِپریت بدھی‘‘ یعنی جب خاتمے کا وقت آتا ہے تو عقل الٹے راستے پر چلنے لگتی ہے۔ انھوں نے اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ عقل کے بگڑنے سے صرف جسمانی امراض ہی پیدا نہیں ہوتے بلکہ سماجی، سیاسی اور معاشی امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔ امت شاہ کے غصہ، گھمنڈ اور زبان سے یہی جھلکتا ہے کہ ان کی عقل نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔

بھگوان شری کرشن نے گیتا میں کہا ہے ’’کرودھاد بھوتی سنموہہ سنموہاتسمرتی وِبھرمہ۔ اسمرتی بھرنشاد بدھیناشو بدھیناشاتپرنشیتی۔‘‘ اس کا مطلب ہے کہ غصہ میں نشہ یعنی لاشعوری پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ غصے میں شخص مسحور ہو کر دوسروں کو بھی گالی دے دیا کرتا ہے۔ نشہ سے یادداشت متاثر ہوتی ہے یعنی کتابوں اور استادوں کے ذریعہ حاصل کیے گئے پیغامات کی تہذیبوں سے جو شعور پیدا ہوتا ہے، اس کا صحیح استعمال نہیں ہو پاتا۔ اس طرح یادداشت کمزور ہونے سے عقل کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ عقل کا خاتمہ یعنی سوچنے سمجھنے یا اچھے برے کی تمیز کرنے کی صلاحیت کا ختم ہو جانا۔

یہ باتیں امت شاہ پر نافذ ہوتی ہیں اور پھر ان کی ’الٹی سمجھ‘ میں یہ کیوں نہیں آیا کہ ان کی ہی مبینہ فیملی این ڈی اے کی رکن شیو سینا، ٹی ڈی پی اور دوسری ساتھی پارٹیاں کیوں ان کی پارٹی کے خلاف پرچم بلند کر رہے ہیں۔ امت شاہ کیا شیو سینا کو سانپ اور ٹی ڈی پی کو چھچھوندر کہہ رہے ہیں؟ کیا وہ سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی کو کتا-بلی کہہ رہے ہیں؟ کیا وہ اپنی ہی پارٹی کے دلت ممبران پارلیمنٹ کا موازنہ جانوروں سے کر رہے ہیں؟

لیکن ’منفی سوچ‘ میں کسی بات کو خاص اہمیت کہاں دی جاتی ہے۔ دراصل انھیں ایسی زبان بولنے، ایسا انداز اختیار کرنے، ایسا طرز تخاطب اختیار کرنے کی ترغیب تو وزیر اعظم سے ہی ملی ہے۔ وہ بھی بولتے وقت نہ صرف زبان کی اخلاقیات کو تاک پر رکھ دیتے ہیں بلکہ دلائل کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ ابھی فروری میں وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں جو تقریر کی تھی اس میں انھوں نے نہ ہی پارلیمنٹ کی قدروں کا خیال رکھا تھا، نہ پارلیمانی نظام کےطریقہ کار کا، نہ جمہوری اقدار کا نہ زبان کے وقار کا اور نہ ہی مہذب لفظوں کے استعمال کا۔

بی جے پی جن ’پربھو شری رام‘ کے نام پر آج خود کو دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہونے کا گھمنڈ دکھاتی ہے، اسے انھیں پربھو شری رام کے منھ سے کہی گئی کچھ باتیں جاننے کی ضرورت ہے۔ امت شاہ کو ’رام چرت مانس‘ کے لنکا کا واقعہ یاد کرنا چاہیے جس میں رام اور وبھیشن کے درمیان ہوئے مکالمہ کے دوران شری رام کہتے ہیں:

مہا اجے سنسار ریپو جیتی سکئی سو بیر

داریں اَر رتھ ہوئی درِڑھ سنہا سکھا متیدھیر۔

یعنی اقتدار کے رتھ پر جو جنگجو سوار ہے وہ اپنے اور پرائے کے فرق سے آزاد ہو کر روح کی شفافیت کی کوشش سے بھرا ہوتا ہے۔ ہزار بار دوہرائے گئے جھوٹ کے بھروسے عالمی جنگ بھلے ہی جیتا جا سکتا ہو، انسان بنے رہنے کا جنگ اخلاقیات اور اقدار کے سہارے ہی جیتا جاتا ہے۔ جھوٹ کے سہارے جیتی گئی جنگوں نے انسان کو پرتشدد بنایا ہے اور اس زمین کو جہنم۔

امت شاہ نے پارلیمنٹ میں رخنہ کے لیے بھی اپوزیشن کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جب کہ سبھی جانتے ہیں کہ اس اجلاس میں رکاوٹ کے لیے برسراقتدار طبقہ ہی ذمہ دار ہے۔ پارلیمنٹ اجلاس کا تذکرہ کرتے ہوئے امت شاہ نے ’فساد‘ لفظ کا استعمال کیا۔ کیا پارلیمانی جمہوریت میں ایک قومی سیاسی پارٹی کے قومی صدر کو اپوزیشن پارٹی کے لیے اس لفظ کا استعمال کرنا درست معلوم پڑتا ہے؟

درحقیقت اداروں پر بہت زیادہ کنٹرول کرنے کے بعد بی جے پی گھمنڈ کا شکار ہو گئی ہے۔ اسے تنقید اچھی نہیں لگتی۔ لیکن جب صحیح سمجھ نہیں رکھتے ہوں تو اس کے کتنے برے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، یہ ملک دلتوں کے ہندوستان بند اور ساتھی پارٹیوں کے بغاوتی تیور سے سمجھ چکا ہے۔ امت شاہ اس وقت جس زبان کا استعمال کر رہے ہیں، وہ بھی اس مشکل وقت اور مایوس کن ماحول کی طرف اشارہ کرتےہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Apr 2018, 8:07 PM