کئی طلبا نے جے این یو کیمپس میں سیکورٹی کو لے کر اٹھائے سوال، ہاسٹل کو کہا خیر باد

یونیورسٹی ہاسٹل میں رہنے والی کئی طالبات کیمپس چھوڑ کر گھر چلی گئی ہیں لیکن کچھ طالبات ایسی بھی ہیں جو کیمپس چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور وہ کہہ رہی ہیں کہ ان کی کچھ ذمہ داریاں ہیں جو وہ نبھائیں گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں اتوار کے روز نقاب پوش غنڈوں کے ذریعہ طلبا و طالبات پر کیے گئے بے رحمانہ حملے کے بعد وہاں ایک خوف کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک طرف جہاں جے این یو کیمپس میں سیکورٹی کو لے کر طلبا سوال اٹھا رہے ہیں، وہیں کئی طالب علم اپنے سرپرستوں کے کہنے پر ہاسٹل کو خیر باد کہتے ہوئے گھر کی طرف رخت سفر باندھنے کو مجبور ہیں۔ خصوصی طور پر طالبات میں خوف بہت زیادہ ہے اور ان کے اہل خانہ بھی اس بات کو لے کر متفکر ہیں کہ جے این یو ہاسٹل میں ان کی بچیاں محفوظ نہیں۔

اتوار کے روز دیر رات تک ہوئے ہنگامے اور پھر پیر کے روز طلبا کے ذریعہ دھرنے و مظاہرے کے درمیان کئی طالبات اپنے سامان بیگ میں لے کر جے این یو کیمپس سے نکلتی ہوئی نظر آئیں۔ کچھ طالبات تو اپنے گھر لوٹ گئیں اور کچھ نے قریب میں رہنے والے رشتہ داروں کے یہاں پناہ لی۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی گزارش کرتے ہوئے کئی طالبات نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے گھر والے نقاب پوش غنڈوں کے کیمپس میں گھسنے اور لاٹھی ڈنڈوں سے اسٹوڈنٹس کی پٹائی دیکھ کر کافی پریشان ہیں اور اپنے بچوں کی حفاظت کے تئیں فکر مند بھی، اسی لیے ان سب کو گھر پہنچنے کے لیے کہا گیا۔


جے این یو میں کوئنا ہاسٹل میں رہنے والی ایک طالبہ پنچم سے جب میڈیا نے بات کی تو اس نے کہا کہ وہ اپنی سیکورٹی کے خوف سے کیمپس چھوڑ رہی ہیں اور ان کے والدین میری سیکورٹی کو لے کر فکرمند ہیں اس لیے وہ واپس ہریانہ جا رہی ہیں۔ اسی طرح نیپال کی رہنے والی ایک طالبہ نے کہا کہ ان کے والدین نے کہا کہ وہ کیمپس چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر چلی جائیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی طالبات ایسا کر رہی ہیں، بلکہ کچھ طالبات ایسی بھی ہیں جو کیمپس میں پورے عزم کے ساتھ جمی ہوئی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ان کی کچھ ذمہ داریاں ہیں جس سے وہ بھاگنا پسند نہیں کرتیں۔ ایسی طالبات لڑکوں کے ساتھ مل کر جے این یو کیمپس کو غنڈوں سے محفوظ بنانے اور یونیورسٹی میں خوشگوار ماحول بنانے کے لیے جدوجہد کرنا چاہتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔