نمازوں میں رخنہ ڈالنے کا سلسلہ، بڑی سازش کا حصہ

ہریانہ کے گروگرام شہر میں کھلے میں نماز پڑھنے پر ہندو تنظیموں نے ہنگامہ کیا، رخنہ ڈالنے کا یہ سلسلہ اب دوسرے شہروں کی طرف رخ کر رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

میرٹھ، نوئیڈ ا، مظفر نگر، دہلی: میرٹھ میں بدھ یعنی 16 مئی کی شام رویت ہلال کے حوالہ سے تذبذب کی صورت حال رہی جس کے سبب رمضان کا اعلان دیر شام گئے کیا گیا ، نماز تراویح بھی اس کے بعد ہی ادا کی گئی۔ اس رات میرٹھ میں شاستری نگر واقع مسلم اکثریتی علاقہ نوچندی گراؤنڈ کی مقبرہ والی مسجد میں بھی تراویح کی تیاری کی گئی ۔ نمازیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے مسجد کے باہر تک صف بنا لی گئیں اور 50 سے زیادہ افراد وہاں نماز ادا کرنے لگے ۔ اچانک ہندو تنظیموں سے وابستہ افراد وہاں آدھمکے اور نماز پڑھنے کی مخالفت کرنے لگے۔ نعرے بازی کے بیچ نماز کو روک دینا پڑا۔

ہندو تنظیموں سے وابستہ لوگوں نے امام کے ساتھ گالی گلوج اور مار پیٹ بھی کی ۔ اس کے بعد دونوں فرقوں میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔ حالات اس قدر خراب ہوئے کہ میرٹھ کے ایس پی سٹی شری پرکاش دیویدی کو فوراً پولس فورس کو ساتھ لے کر موقع پر پہنچ کر صورت حال سنبھالنی پڑی۔

نوچندی تھانہ انچارج دھیرج کمار شکلا کے مطابق ، ’’اچانک زیادہ تعداد میں لوگوں کے نماز کے لئے آ جانے سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔ عام طور پر یہاں 4-5 لوگ ہی نماز ادا کرتے ہیں ۔‘‘

واقعہ کے ایک چشمدید نمازی زبیر احمد پولس کے بیان سے اتفاق نہیں کرتے ۔ وہ کہتے ہیں، ’’ ماہ رمضان میں مسلمان زیادہ عبادت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنا کام تک چھوڑ دیتے ہیں۔ نمازیوں پر حملہ کرنے والے اکثریتی طبقہ کے لوگ اس بات سے بے خبر نہیں ہیں۔ پولس کی یہ دلیل کہ اچانک بھیڑ دیکھ کر غلط فہمی پیدا ہو گئی، صحیح نہیں ہے۔ ‘‘

شاستری نگر کے سیکٹر 3 میں واقع اس مقبرے میں سالوں سے نماز ادا ہوتی رہی ہے ، پہلے کسی نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ حافظ کے ساتھ مار پیٹ کرنا بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس کے بعد دونوں فرقوں میں پتھراؤ ہوا اور فرقہ وارانہ طور پر بے حد حساس میرٹھ شہر میں افواہوں کا بازار گرم ہو گیا۔ بعد میں حافظ شاکر کی تحریر پر حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔

اب نوئیڈا کا رخ رکتے ہیں جہاں اسی جمعہ یعنی 18 مئی کو نماز کے دوران رخنہ ڈالنے کا ایک اور معاملہ سیکٹر 144 میں منظر عام پر آیا۔ اس علاقہ کو ایس ای زیڈ (اسپیشل اکنامک زون ) کہا جاتا ہے اور یہاں مختلف نیشنل اور انٹر نیشنل کمپیناں موجود ہیں ۔ ان کمپنوں میں کافی تعداد میں مسلم ملازمین بھی کام کرتے ہیں جو آس پاس کسی مسجد کے نہ ہونے کے سبب ایک خالی پڑے پارک میں نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز کی امامت کرنے کے لئے یہاں باہر سے مولانا بھی آتے ہیں۔ اس جمعہ جب یہ ملازمین نماز ادا کرنے کے لئے پارک میں گئے تو وہاں پر مقامی پولس پہنچی اور کہا کہ وہ آگے سے اس پارک میں نماز ادا نہ کریں ۔

گروگرام میں کھلے میں نماز ادا کرتے فرزندان توحید
گروگرام میں کھلے میں نماز ادا کرتے فرزندان توحید

ایک کمپنی میں ملازم شرف الدین (27 ) نے قومی آواز کو بتایا کہ ’’پارک میں جھڑیاں کھڑی ہوئی تھیں اور جانور بھی گھومتے رہتے تھے۔ ہم نے رمضان سے قبل یہاں کی صفائی کی۔ یہاں آس پاس ملازمت کرنے والے 80-85 لوگ ایک ساتھ نماز جمعہ ادا کرتے ہیں ۔ اب پولس یہاں نماز اد ا کرنے سے منع کر رہی ہے ۔ ‘‘

نوئیڈا پولس کے ذرائع کے مطابق نماز کے لئے منع کرنے کا پولس کو کوئی احکام نہیں ملا ہے بکہ وہ گروگرام جیسی صورت حال سے بچنا چاہتی ہے۔ دراصل پولس کو یہ ڈر ہے کہ نماز کے دوران ہندو تنظیموں سے وابستہ افراد یہاں ہنگامہ کر سکتے ہیں۔ اگر چہ پولس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس شکایت کی گئی ہے لیکن شکایت کس نے کی ہے یہ بناتے کو وہ تیار نہیں ہے۔

شعیب عالم (30) کا کہنا ہے، ’’نوئیڈا کے تقریباً تما م پارکوں میں آر ایس ایس کی شاکھا لتی ہے۔ اگر ہفتہ میں ایک دن آدھا گھنٹہ مسلمان نماز پڑھ لیتے ہیں تو کیا حرض ہے ۔ مذہبی آزاد کا حق ہمیں آئین نے دیا ہے۔ گروگرام کے بعد نوئیڈا کے پارکوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ‘‘

قبل ازیں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ یہ بیان دے چکے ہیں کہ ’’جب کھلے میں نماز پڑھنے کو نہیں روک سکتے تو جنم اشٹمی کو وہ کیسے روک سکتے ہیں!‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کھلے میں نماز ادا کرنے کا اشیو اس وقت اتنا کیوں اچھالا جا رہا ہے! در اصل یہ مدا اچانک نہیں سوچی سمجھی سازش کا حصہ معلوم دیتا ہے۔

دراصل سوشل میدیا پر برے پیمانے پر ’پاپولیشن ایکسپلوزن‘ کے نام پر یہ پھیلایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور دھیرے دھیرے ان کے علاقے بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ بھی پھیلایا جا رہا ہے کہ پہلے یہ پارکوں میں نماز ادا کریں گے اور پھر وہاں مسجد بناکر پوری جگہ پر قبضہ کر لیں گے۔

پارک میں نماز کی تیاری کرتے لوگ
پارک میں نماز کی تیاری کرتے لوگ

شرف الدین کہتے ہیں، ’’زمین پر قبضہ کرنے کی بات بے بنیاد ہے۔ ہم جہاں ملاز مت کرتے ہیں وہاں ایک درجن سے زائد کمپنیاں ہیں جن میں ہزاروں لوگ کام کرتے ہیں۔ آس پاس کئی مندر ہیں جبکہ پورے سیکٹر میں ایک-دو ہی مساجد ہیں جہاں تک پہنچے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہمیں پریشان کرنے کی نیت سے کیا جا رہا ہے۔ ‘‘

اتر پردیش میں مساجد کی تعداد کم ہے اور نئی مسجد تعمیر کی اجازت بھی بہت مشکل سے مل پاتی ہے۔ مثلاً مظفر نگر میں جانسٹھ تحصیل میں واقع گاؤں چڑیالہ کے سابق پردھان شاکر نے قومی آواز کو بتایا کہ ان کے گاؤں کے لوگ گزشتہ 15 سال سے مسجد تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اجازت نہیں مل پاتی۔ وہ کہتے ہیں کہ انتظامیہ کی طرف سے کوئی نہ کوئی اعتراض لگا دیا جاتا ہے اور تعمیر ٹل جاتی ہے۔ نئی مسجد تو پھر بھی دور کی بات ہے یہاں تو پرانی مسجد کی از سر نو تعمیر کا عمل بھی بہت پیچیدہ ہے ۔

میرٹھ کے قاری شفیق الرحمن کہتے ہیں ، ’’کسی متنازعہ مقام پر نہ تو مسجد تعمیر کی جا سکتی ہے اور نہ ہی وہاں نماز ادا ہو سکتی ہے۔ اگر انتظامیہ مسلمانوں کو مسجد تعمیر کی اجازت دے تو وہ اپنے پیسے سے خوشی کے ساتھ مسجد تعمیر کر لیں گے۔ ‘‘

پچھلے دنوں دہلی میں قبرستان کو لیکر بھی تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور مساجد کے سامنے نعرے بازی کے بھی کئی واقعات رونما ہوئے۔ اس سب کو بی جے پی کی سازش قرار دیتے ہوئے سماجوادی پارٹی کے ایم ایل سی آشو ملک نے کہا، ’’2019 میں بی جے پی کے پاس ترقی کا کوئی مدا نہیں ہے اور وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں ہے کہ اس نے مسلمانوں کا دماغ ٹھیک کر دیا ہے۔ وہ بس ووٹوں کی تقسیم چاہتی ہے۔‘‘

دو مہینے قبل امروہہ کے سیدپور نگلی گاؤں میں ہندووادی رہنما سکرم پال رانا (74) نے بڑی تعداد میں پھیڑ کے ساتھ جاکر نماز میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی تھی ۔ اس واقعہ کے بعد سکرم پاک کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن گاؤں سے کافی تعداد میں مسلمانوں نے نقل مکانی کر لی اور باہر چلے گئے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ نماز میں رخنہ ڈالنا کسی بڑی سازش کا حصہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔