’چار مراحل کے بعد این ڈی اے سے کافی آگے ہے کانگریس کی قیادت والا یو پی اے‘

ملک بھر سے آ رہیں گراؤنڈ رپورٹس، مختلف ایجنسیوں اور ذرائع سے حاصل معلومات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے چار مراحل کی 371 سیٹوں پر پولنگ کے بعد این ڈی اے کی سیٹیں تعداد میں یو پی اے سے 30 کم رہ سکتی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تتھاگت بھٹاچاریہ

ملک بھر سے آ رہیں گراؤنڈ رپورٹس، مختلف ایجنسیوں اور ذرائع سے حاصل معلومات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے چار مراحل کی 371 سیٹوں پر پولنگ کے بعد این ڈی اے کی سیٹیں تعداد میں یو پی اے سے 30 کم رہ سکتی ہیں۔

حالانکہ ان اطلاعات پر کانگریس کے ترجمان کچھ نہیں کہہ رہے ہیں لیکن کانگریس کے صدر راہل گاندھی جس خود اعتمادی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی کی بطور وزیر اعظم واپسی نہیں ہو رہی اس سے کچھ اشارے تو ملتے ہی ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کی انتخابی تقریروں میں جو مایوسی نظر آ رہی ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ این ڈی اے میں گھبراہٹ کا ماحول ہے، یہ سب پولنگ کے بعد ملنے والی ’فیڈ بیک‘ کا اثر نظر آتا ہے۔

جو اطلاعات موصول ہو رہی ہیں ان کے مطابق جنوب کے کیرالہ میں کانگریس کی قیادت والے یو ڈی ایف کو 20 میں سے کم از کم 15 سیٹیں حاصل ہو سکتی ہیں۔ وہیں کیرالہ کے ہی ملحقہ تمل ناڈو اور مرکز کے زیر انتظام پوڈوچیری کی کل 40 سیٹوں میں سے کانگریس-ڈی ایم کے اتحاد سب کا کلین سوئپ کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کرناٹک میں جے ڈی ایس-کانگریس اتحاد کم از کم 16 سیٹوں پر جیت حاصل کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

مغرب کا رخ کریں تو یہاں سے این ڈی اے کو شیدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ این ڈی اے کے لئے شمالی ہندوستان کے بعد سب سے بڑا جھٹکا مہاراشٹر سے لگنے کا امکان ہے۔ نیشنل ہیرالڈ کو جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں اس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس-این سی پی اتحاد مہاراشٹر میں 30 سیٹیں تک حاصل کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی این ڈی اے کو سب سے زیادہ نقصان ودربھ سے ہونے کا امکان ہے۔


اتنا ہی نہیں وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ کے آبائی صوبہ گجرات میں بھی کانگریس 2004 اور 2009 جیسی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے اور گجرات کے ووٹر وزیر اعظم نریندر مودی کی تمام 26 سیٹیں دینے کی اپیل کو خارج کر سکتے ہیں۔ یہاں بی جے پی کو 2014 کے مقابلہ کم از کم 10 سیٹوں کا نقصان برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔

کانگریس حکمرنی والے صوبہ چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی حالت اور بھی خراب ہے اور اطلاعات اور فیڈ بیک سے اشارے ملتے ہیں کہ یہاں کی 11 سیٹوں میں سے اس کے حصہ میں بمشکل 2 سیٹیں ہی آ سکتی ہیں۔

راجستھان کی کل 25 سیٹوں میں سے ابھی تک صرف 13 پر ہی ووٹنگ ہوئی ہے۔ یہاں کے حوالہ سے ابھی خاص اندازہ نہیں ہے لیکن جو رپورٹیں حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق کم از کم جھالاواڑ-بارن کی سیٹ تو بی جے پی کےئ حصہ میں قطعی نہیں آنے والی۔ اس سیٹ پر راجستھان کی سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے کے بیٹے اور تین مرتبہ کے رکن پارلیمان دشینت سنگھ بی جے پی سے امیدوار ہیں۔

اس کے علاسہ مدھیہ پردیش میں بھی ابھی محض 6 سیٹوں پر ہی ووٹنگ ہوئی ہے، ایسے میں وہاں کے حوالہ سے بھی کچھ خاص نہیں کہا جا سکتا لیکن ابتدائی رپورٹوں اور بوتھ سطحی فیڈ بیک سے اشارہ ملتا ہے کہ بی جے پی کم از کم 3 سیٹوں پر ہار رہی ہے۔


ملک کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی بات کریں تو ووٹروں کا جو رجحان تاحال منظر عام پر آیا ہے اس کے مطابق اسی صوب میں بی جے پی کو سب سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ 2014 میں بی جے پی نے یو پی میں 80 میں سے 71 سیٹیں جیت لی تھین۔ اب تک ہوئی ووٹنگ اور اس کے تعلق سے حاصل ہوئیں اطلاعات کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد اس مرتبہ 30 سے بھی کم رہ سکتی ہے۔

دراصل کانگریس نے اتر پردیش میں دوہری پالیسی اختیار کی ہے۔ کانگریس کو جہاں جیت کی امید نظر آئی وہاں اس نے مضبوط امیدوار کو میدان میں اتارا اور جہاں اسے شبہ تھا وہاں اس نے ایس پی-بی ایس پی-آر ایل ڈی اتحاد کی مدد کی۔

اس کے علاوہ پنجاب میں اپنی بہتر کارکردگی کو لے کر کانگریس شروع سے ہی پر امید نظر آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ اسے ہریانہ سے بھی بہتر کی امید ہے جبکہ ان دونوں صوبوں میں بی جے پی کو نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔


ان رپورٹوں کے بعد شاید بی جے پی کو مغربی بنگال سے ہی امید کی کرن نظر آتی ہے لیکن نیشنل ہرالڈ کو موصول ہوئی اطلاع کے مطابق مغربی بنگال میں بھی بی جے پی کے لئے مواقع بے حد کم ہیں اور اب تک جن 18 سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی ہے اس میں وہ زیادہ سے زیادہ ایک سیٹ جیت سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بنگال میں کانگریس کو 2 سیٹیں مل سکتی ہیں جبکہ ایک سیٹ پر اس کی کانٹے کی ٹکر ہے۔

آسام سے موصول ہو رہی رپورٹیں بھی بی جے پی کے لئے بہتر نہیں ہیں۔ یہاں بی جے پی برسراقتدار جماعت ہے لیکن اس کی سیٹوں کی تعاد اس مرتبہ 2014 کے آس پاس ہی رہنے کا امکان ہے۔

انتخابی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بقیہ تین مراحل کا رجحان بھی پہلے چار مراحل کی ووٹنگ سے متعلق رپورٹوں اور فیڈ بیک کے مطابق رہا تو 23 مئی کو جب نتائج کا اعلان ہوگا تو وزیر اعظم مودی اور ان کی قیادت والے این ڈی اے کے لئے 2019 کے اقتدار کے دروازے بند ہو جائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 May 2019, 9:10 PM