آفرین فاطمہ: اے ایم یو طالبات کی جدید سوچ کی علامت

پریاگ راج یعنی الٰہ آباد کی باشندہ آفرین فاطمہ حال ہی میں اے ایم یو ویمنس کالج (عبداللہ گرلس کالج) کی صدر بنی ہیں۔ انھوں نے صدارتی عہدہ پر انتخاب لڑ رہی سدرا عشرت کو 98 ووٹوں سے ہرایا ہے۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
user

آس محمد کیف

علی گڑھ: انتہائی معصوم نظر آنے والی آفرین فاطمہ کی عمر 19 سال ہے۔ لیکن کسی کے اندر موجود قابلیت کا اندازہ اس کی معصومیت سے قطعی نہیں لگایا جا سکتا۔ آفرین خود کہتی ہیں کہ ’’یہ ٹھیک ہے کہ میں بچی جیسی نظر آتی ہوں، لیکن مجھے ویمنس کالج (اے ایم یو) کا صدر میرے معصوم چہرے کی وجہ سے نہیں بنایا گیا۔ میں نے اس کے لیے محنت کی ہے، طالبات کے دروازوں پر دستک دی ہے، انھیں اپنا مقصد سمجھایا ہے اور بھروسہ دلایا ہے کہ میں ان کے لیے لڑنا چاہتی ہوں۔ میں نے انھیں بتایا کہ اکثر یہی ہوتا رہا ہے کہ لڑکیاں مینجمنٹ کے پاس بات لے کر گئیں، بات نہیں مانی گئی تو واپس آ گئیں، لیکن میں یہ نہیں کروں گی۔ میں وہیں پالتھی مار کر بیٹھ جاؤں گی... ایک دن، دو دن یا پھر 100 دن۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’میرے چہرے کی معصومیت پر مت جانا، میں نے جو وعدہ کیے ہیں اسے پورا کرنے کے لیے میں ضرور لڑوں گی۔‘‘

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد

الٰہ آباد کی باشندہ آفرین فاطمہ حال ہی میں اے ایم یو ویمنس کالج (عبداللہ گرلس کالج) کی صدر بنی ہیں۔ انھوں نے صدارتی عہدہ پر انتخاب لڑ رہی سدرا عشرت کو 98 ووٹوں سے ہرا دیا۔ گرلس کالج میں تقریباً 3 ہزار طالبات ہیں جن میں سے تقریباً 2 ہزار نے ووٹنگ میں حصہ لیا۔ آفرین کو ان طالبات میں سے 726 نے ووٹ کیا۔ فتحیابی کے بعد اپنی حلف برداری تقریب میں آفرین کہتی ہیں کہ ’’میں اپنی بہنوں کی امیدوں پر کھرا اتروں گی اور تمام ایشوز پر کام کروں گی۔‘‘

ویمنس کالج کی نومنتخب صدر آفرین کے مطابق اس نے انتخاب مجبوراً لڑا کیونکہ مینجمنٹ میں کوئی اصلاح نہیں ہو رہی تھی۔ منتخب ہو کر آ رہے نمائندے غلط نہیں تھے لیکن وہ دباؤ نہیں بنا پا رہے تھے۔ غور طلب ہے کہ اے ایم یو ویمنس کالج میں گزشتہ کچھ سالوں سے میں کیمپس کے لڑکوں سے کمتر نہ ہونے کی ایک جنگ چل رہی ہے۔ گزشتہ سال بلیٹ موٹر سائیکل پر لڑکیوں کی انتخابی تشہیر بھی اسی مہم کا حصہ تھی۔ اس وقت کی صدر نبا نسیم لڑکیوں کے ساتوں دن آؤٹنگ کے ایشو کے ساتھ انتخاب جیت گئی تھیں، اب لڑکیاں 3 دن آؤٹنگ پر جا سکتی ہیں۔ آفرین کہتی ہیں کہ ’’میں ایڈلٹ (بالغ) ہوں۔ یہ کون جاننا چاہتا ہے کہ میں باہر کیوں جانا چاہتی ہوں۔‘‘

آفرین یقیناً اپنے معصوم چہرے کے پیچھے ایک قابل ذہن رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے یہ انتخاب غیر برابری کے مسئلہ پر نہیں لڑا ہے لیکن ان کی تمام تشہیر میں ان کا ’سوتیلا‘ لفظ چھایا رہا ہے۔ مثلاً وہ کہتی تھیں کہ ’’ساری غلطیاں مینجمنٹ کی ہیں، وہ ہمارے ساتھ سوتیلا سلوک کرتی ہے۔ ہمیں کمتر سمجھا جاتا ہے، مشاعرہ میں ہمارے داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگلے دن چھٹی کا اعلان کرا دیتے ہیں۔ مین کیمپس والے جب چاہیں امتحان کی تاریخ بدلوا لیتے ہیں، پروگرام میں صرف چار لڑکیاں ترانہ گانے کے لیے بلا لی جاتی ہیں۔‘‘

آفرین کا کہنا ہے کہ ’’ہماری خواہش ہے کہ ہمارے ساتھ وہی سلوک ہو جو مین کیمپس کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ ہمارے ایشوز سہولیات سے متعلق ہیں۔‘‘ بی اے سال سوم کی طالبہ آفرین فاطمہ کے والد جاوید ایک بزنس مین ہیں ، بقول آفرین اب وہ ’پریاگ راج‘ کی رہنے والی ہیں۔ ضلع کا نام بدلنے کی سیاست سے الگ وہ کہتی ہیں کہ ’’ملک میں مسلمانوں کو انتہائی دردناک حالت سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے ساتھ دوئم درجے کا سلوک ہو رہا ہے۔ آخر ہمیں صفائی کیوں دینی پڑ رہی ہے۔ ہمارے ساتھ بہت کچھ غلط ہو رہا ہے۔‘‘

اب جب کہ آفرین فاطمہ اے ایم یو ویمنس کالج کی صدر بن چکی ہیں تو کالج کی طالبات کو ان سے کافی امیدیں وابستہ ہو گئی ہیں۔ آفرین کی دوست افتشام کا کہنا ہے کہ ’’آفرین نے گرلس کالج کی لڑکیوں کے دل کی بات کو سمجھا اور یقیناً وہ سب سے اہل امیدوار تھیں۔ ظاہر ہے ہم ان سے ’سوتیلے‘ سلوک کو ختم کرنے کی امید کر رہے ہیں۔‘‘ اچھی بات یہ ہے کہ دورِ جدید میں لڑکیوں کی سوچ کافی بدلی ہے جو ایک مثبت امر ہے۔ اس سلسلے میں اے ایم یو کی سابق طالبہ شاداب بانو کہتی ہیں کہ ’’حالات کے ساتھ یہاں لڑکیوں کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اسے فکری انقلاب کہہ سکتے ہیں۔ گزشتہ کچھ وقت سے لڑکیاں برابری جیسے ایشوز کو اٹھا رہی ہیں اور اپنا حق حاصل کر رہی ہیں۔ ‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Nov 2018, 7:09 PM