لوک سبھا الیکشن 2014 اور 2019 میں ای وی ایم میں گڑبڑی ہوئی! اے ڈی آر کا دعویٰ

سال 2014 میں ہوئے لوک سبھا الیکشن میں تقریباً 370 سیٹوں پر ووٹوں کی تعداد میں زبردست گڑبڑی ہوئی تھی۔ یہ گڑبڑی ای وی ایم کی وجہ سے ہوئی اور اس بارے میں کچھ بتانے سے الیکشن کمیشن نے انکار کر دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

سال 2014 میں ہوئے لوک سبھا الیکشن میں 370 لوک سبھا سیٹوں پر ووٹوں کی تعداد میں زبردست گڑبڑی ہوئی تھی۔ یہ گڑبڑی ای وی ایم کی وجہ سے ہوئی تھی۔ یہ دعویٰ کیا ہے ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) نے۔ اے ڈی آر کے مطابق اس گڑبڑی کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے الیکشن کمیشن نے انکار کر دیا ہے۔ اس ایشو پر اب اے ڈی آر کے ذریعہ سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے۔ یہ عرضی 15 نومبر کو داخل کی گئی ہے۔ عرضی میں عدالت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہندوستانی الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دے کہ کسی الیکشن کے نتیجہ کا اعلان کرنے سے پہلے وہ درست ڈاٹا دستیاب کرائیں کہ کتنے ووٹ پڑے۔ عرضی دہندہ نے عدالت سے یہ بھی گزارش کی ہے کہ سال 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں ڈاٹا کو لے کر ہوئی تمام خامیوں کی جانچ بھی کرائی جائے۔

اے ڈی آر نے 2014 کے ساتھ ساتھ 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں بھی انتخابی کمیشن کی طرف سے دستیاب کرائے گئے ڈاٹا میں خامی ہونے کی بات کہی ہے۔ کہا گیا ہے کہ 2014 کے الیکشن نتائج اعلان ہونے کے بعد کمیشن کی ویب سائٹ اور اس کے ایپ (مائی ووٹرس ٹرن آؤٹ ایپ) پر جو ووٹنگ ڈاٹا دستیاب کرائے گئے تھے ان میں کئی بار بدلاؤ کیے گئے تھے اور ہو سکتا ہے کہ یہ بدلاؤ خامیوں کو چھپانے کے لیے کیا گیا ہو۔ عرضی دہندہ نے کہا کہ ڈاٹا میں کیے گئے بدلاؤ پر کمیشن کی طرف سے کچھ بھی نہیں کہا گیا۔


عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے پر ماہرین کی ٹیم کے ذریعہ ریسرچ کیا گیا، جس کے بعد پایا گیا کہ کاؤنٹنگ کے دوران ووٹوں کی کل تعداد اور ای وی ایم میں پڑے ووٹوں کی کل تعداد الگ الگ انتخابی حلقوں میں الگ الگ تھے۔ یہ ریسرچ اسی ڈاٹا کے بنیاد پر کیا گیا تھا جو ڈاٹا کمیشن کی طرف سے 28 مئی 2019 اور 30 جون 2019 کو ویب سائٹ پر دستیاب کرایا گیا تھا۔

اے ڈی آر نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ کل 347 سیٹوں پر پڑے کل ووٹ اور ای وی ایم میں پڑے ووٹوں کی کل تعداد میں فرق ہے۔ 6 سیٹ تو ایسی ہیں جہاں ووٹوں کی تعداد امیدوار کے جیتے گئے ووٹوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کے نتائج کا اعلان کرنے سے پہلے ووٹوں کی تعداد اچھی طرح جانچی جائے۔ عرضی میں اس بارے میں انگلینڈ، فرانس، پیرو اور برازیل جیسے کچھ ممالک کی مثال دی گئی ہے۔ ان ممالک میں الیکشن کے نتائج ایک طے شدہ اتھارٹی کی جانچ پرکھ کے بعد ہی اعلان کیے جاتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Nov 2019, 6:11 PM