پونے پولس نے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر کیا ظلم تو چیخ اٹھے دانشور

سماجی کارکنان، رائٹرس، وکلاء اور دانشور حضرات کے گھروں پر چھاپہ ماری اور کئی لوگوں کی گرفتاری کی خبر جیسے ہی پھیلی، ہر انصاف پسند اور ذی ہوش شخص اس کارروائی کی پرزور تنقید کرتا ہوا نظر آیا۔

گرافکس نیشنل ہیرالڈ
گرافکس نیشنل ہیرالڈ
user

قومی آوازبیورو

مہاراشٹر کی پونے پولس کے ذریعہ منگل کی صبح 6 شہروں میں چھاپہ ماری اور یکم جنوری کو بھیما کوریگاؤں تشدد معاملہ میں کئی مشہور و معروف سماجی کارکنان، رائٹرس و وکلاء کی گرفتاری کے بعد بڑے پیمانے پر اس سلسلے میں تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پونے پولس کی اس چھاپہ ماری کو غلط ٹھہراتے ہوئے کانگریس لیڈر جے پال ریڈی نے کہا کہ ’’یہ عمل تاناشاہی ذہنیت کا مظہر ہے۔ میں سماجی کارکنان اور وکلاء کے حق میں کھڑا ہوں۔ یہ لوگ مخلص انسان ہیں جو سوسائٹی کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘‘ کانگریس ترجمان جے ویر شیرگل نے اس سلسلے میں کہا کہ ’’سماجی کارکنان کو قصوروار قرار دینا اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپہ ماری کرنا، اور جعل سازوں کے لیے مفید اسکیم تیار کرنا بی جے پی کی جانب سے ’اچھے دن‘ کا ورژن ہے۔‘‘

اب تک تقریباً 9لوگوں کی گرفتاری پر اپنا رد عمل ظاہر کرتی ہوئے سماجی کارکن اور رائٹر اروندھتی رائے کہتی ہیں کہ ’’یہ آئندہ انتخابات کی تیاری ہے۔ ہم اس طرح کی چیزوں کی قطعی اجازت نہیں دیں گے اور ہم سبھی ظلم کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہم ہر آزادی سے محروم ہو جائیں گے۔جس طرح کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ہم ایمرجنسی کے اعلان کے بہت قریب ہیں۔‘‘ اروندھتی رائے موجودہ ماحول کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہتی ہیں کہ ’’قاتل بھیڑ کو تیار کرنے اور برسرعام قتل کرنے والوں کی جگہ وکیلوں، ادیبوں، رائٹروں، صحافیوں اور دلت حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکنان و دانشوروں کے گھروں پر چھاپہ ماری کی جا رہی ہے جو بہت صاف طور پر بتاتا ہے کہ ہندوستان کس جانب گامزن ہے۔‘‘

ایک سینئر صحافی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر سدھا بھاردواج کی گرفتاری پر حیرانی ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’چھتیس گڑھ میں ایک رپورٹ کی حیثیت سے میں نے سدھا بھاردواج کا فون ریسیو کیا جب وہ فیکٹری مزدوروں، بچوں، اپنی زمینوں سے دستبردار کیے گئے قبائلیوں سے متعلق کیس پر کام کر رہی تھیں۔ انھوں نے تاحیات غریب اور خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کے حقوق کے لیے جنگ لڑی۔ یہ بہت حیران کرنے والا ہے کہ انھیں اینٹی ٹیرر قانون کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔‘‘

پونے پولس کی چھاپہ ماری اور سماجی کارکنان و دیگر مشہور اشخاص کی گرفتاری پر آر جے ڈی نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس کارروئی کو غلط قرار دیا ہے۔ آر جے ڈی کے رہنما تیجسوی یادو نے کہا کہ ’’ہم ان گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں۔ جو بھی انسانی حقوق کی پامالی و دلتوں پر مظالم کے خلاف اپنی آواز اٹھاتا ہے بی جے پی کی فاشسٹ حکومت میں ان کے خلاف چھاپہ ماری کرائی جاتی ہے۔‘‘ سی پی آئی (ایم) نے بھی اس معاملے میں موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کئی ٹوئٹس کیا ہے۔

شہلا رشید، موہت پانڈے، پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا، نیہا دیکشت، جگنیش میوانی، صنم ستیرتھ وزیر، نکل سنگھ ساہنی، تیستا سیتلواڑ، ہریش ایر، سوامی اگنیویش، ایڈمیرل ایل رام داس اور نرجھری سنہا وغیرہ نے پونے پولس کے ذریعہ کی گئی چھاپہ ماری اور گرفتاری کی تنقید کرتے ہوئے ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ انھیں جلد از جلد آزاد کیا جائے۔ اس مشترکہ بیان میں لکھا گیا ہے کہ ’’معروف سماجی کارکنان اور دانشوروں کی گرفتاری محض حکومت کے ذریعہ ایسے لوگوں میں دہشت پھیلانے کی کوشش ہے جو کمزور اور مظلوم طبقہ کو انصاف دلانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ بی جے پی کے ذریعہ جھوٹے دشمن کی ایجاد اور 2019 انتخابات میں پولرائزیشن کے مقصد سے ہنگامہ و نفرت پھیلانے والے لوگوں کو مصروف کرنا ہے۔‘‘ اس بیان میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’’جون 2018 سے حکومت اور میڈیا گھرانے، جو کہ بی جے پی سے قریب ہیں، وہ لگاتار ماؤوادی سازش کی جھوٹی بات لوگوں میں پھیلانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔‘‘

بہر حال، انصاف پسند شخصیتوں، سماجی کارکنان اور دانشور طبقہ کے ذریعہ پونے پولس کی چھاپہ ماری اور گرفتاریوں کو لگاتار تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی تنقید کا سلسلہ لگاتار جاری ہے۔ سینئر ایڈووکیٹ اندرا جے سنگھ، پرشانت بھوشن، سینئر صحافی راج دیپ سردیسائی، نکھل واگھلے، رام چندر گوہا وغیرہ جیسی مشہور شخصیتوں نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس عمل کے خلاف آواز بلند کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔