پروفیسر کو تھپڑ مارنے والی اے بی وی پی کی ڈوسو جوائنٹ سکریٹری دیپیکا جھا 2 ماہ کے لیے معطل

گزشتہ ماہ دیپیکا جھا کی ایک ویڈیو کافی وائرل ہوئی تھی، جس میں وہ یونیورسٹی کے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کالج میں ایک فیکلٹی ممبر کو تھپڑ مارتی ہوئی نظر آئی تھیں۔

<div class="paragraphs"><p>ویڈیو گریب</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

دہلی یونیورسٹی میں جوائنٹ سکریٹری بننے والی دیپیکا جھا ان دنوں تنازعہ میں ہیں۔ اے بی وی پی لیڈر دیپیکا جھا کو 2 ماہ کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ ان کی ایک ویڈیو کافی وائرل ہوئی تھی، جس میں وہ یونیورسٹی کے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کالج میں ایک فیکلٹی ممبر کو تھپڑ مارتی ہوئی نظر آئی تھیں۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ 16 اکتوبر کا ہے۔ اس وقت بتایا گیا تھا کہ دیپیکا جھا نے کالج کی ڈسپلنری کمیٹی کے کنوینر پروفیسر سُجیت کمار کو پرنسپل آفس میں میٹنگ کے دوران تھپڑ مار دیا تھا۔ تحقیقاتی کمیٹی نے 3 ماہ کی معطلی کی سفارش کی تھی، لیکن یونیورسٹی نے فیصلہ کیا کہ 2 ماہ بعد ان کے طرز عمل کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔

کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر دیپیکا کو 2 ماہ کے لیے معطل کر دیا جائے گا۔ اس دوران وہ ڈی یو کیمپس میں ڈوسو عہدیدار کے طور پر نہیں جا پائیں گی۔ صرف اپنی تعلیم سے متعلق کلاسز میں ہی شامل ہو سکیں گی۔ واضح رہے کہ تھپڑ واقعہ کے بعد پروفیسر سُجیت کمار نے ڈسپلنری کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ دیپیکا جھا نے پوری ٹیچنگ کمیونٹی سے معافی مانگی، ساتھ ہی انہوں نے پروفیسر پر بدسلوکی کا الزام بھی عائد کیا ہے، جسے پروفیسر نے سرے سے خارج کر دیا ہے۔


دیپیکا جھا کا کہنا ہے کہ انہیں کچھ طلبہ نے بلایا تھا جن کا کہنا تھا کہ انہیں سیاسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کا الزام تھا کہ پرنسپل آفس میں پولیس کی موجودگی میں ہی پروفیسر سُجیت کمار نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور پولیس نے ان کی شکایت نہیں سنی۔ ایک مبینہ ویڈیو میں پولیس اہلکار موقع پر دکھائی دے رہے ہیں۔

ڈیموکریٹک ٹیچرز فرنٹ (ڈی ٹی ایف) کا کہنا ہے کہ تقریباً 50 طالب علم، جن میں ڈوسو صدر آرین مان بھی شامل تھے، کالج میں داخل ہوئے اور اساتذہ سے بدسلوکی کی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیپیکا جھا کو پروفیسر کو تھپڑ مارتے ہوئے صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈی ٹی ایف نے اسے غنڈہ گردی قرار دیتے ہوئے وارننگ دی کہ ایسے معاملوں پر روک نہیں لگی تو کیمپس میں تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔