انسانیت اور بھائی چارے کی شاندار مثال! بیٹے کی یاد میں جناردن سنگھ نے قبرستان کے لیے عطیہ کر دی اپنی زمین
جناردن کے مطابق آخری رسومات کے لئے مسلمانوں کو کافی پریشانی ہوتی تھی، یہ دیکھ کر میرا دل پگھل جاتا تھا۔ اس کے بعد میں نے گاؤں میں اپنی ایک بیگھہ زمین کو وہاں کے مسلمانوں کو قبرستان کے لیے عطیہ کر دی

بہار کے ایک ہندو خاندان نے انسانیت اور بھائی چارے کی شاندار مثال پیش کی ہے۔ اپنے اکلوتے بیٹے کی المناک موت کے بعد غمزدہ والد نے اس کی یاد میں لاکھوں روپئے مالیت کی ایک بیگھہ زمین مسلمانوں کو عطیہ کردی تاکہ وہاں قبرستان بنایا جا سکے۔ بیٹے کی یاد میں تڑپ رہے خاندان کا یہ فیصلہ ہندو۔ مسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ یکجہتی کے جذبے کو مزید تقویت دے رہا ہے۔ ان کے اس فیصلے کی گاؤں اور آس پاس کے علاقوں میں خوب تعریف ہورہی ہے۔
یہ واقعہ بکسر کے چوسا بلاک کے دیوی ڈیہرا گاؤں کا ہے جہاں جناردن سنگھ کے اکلوتے بیٹے شیوم کمار (25 سال) کی 18 نومبرکو دہرادون میں ایک سڑک حادثے میں موت ہوگئی تھی۔ آئی ٹی سے بی ٹیک اور ایم بی اے کرچکے شیوم دہرادون میں تین فیکٹریاں چلارہے تھے۔ موجودہ وقت میں خاندان ان کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ بیٹے کی موت سے نڈھال ہوچکے جناردن سنگھ کہتے ہیں کہ میرا بیٹا بڑا سمجھدار فطرت کا تھا، ہم نے اس کی تعلیم وتربیت دہرادون میں ہی پوری کرائی تھی۔ میرے بیٹے کی آخری رسومات مانیکا گھاٹ میں کی گئیں۔ وہاں جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر ان کا دل بھرآیا۔
جناردن سنگھ بتاتے ہیں کہ آخری رسومات کے لئے گاؤں کے مسلمانوں کو کافی پریشانی ہوتی، یہ دیکھ کر میرا دل پگھل جاتا تھا۔ اس کے بعد میں نے گاؤں میں ہی اپنی ایک بیگھہ زمین کو وہاں کے مسلمانوں کو قبرستان کے لیےعطیہ کردی۔ جناردن سنگھ کا دہرادون میں آیورویدک ادویات کے خام مال کا کاروبار ہے۔ جناردن سنگھ کے فیصلے میں ان کا مشترکہ خاندان بھی شامل ہے۔ جناردن کے چھوٹے بھائی اور متوفی کے چچا برج نندن سنگھ کہتے ہیں کہ قبرستان کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے گی۔ اس کمیٹی میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل رہیں گے۔ یہ کمیٹی قبرستان کی دیکھ بھال کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ قبرستان کے لیے جو زمین عطیہ کی گئی ہے اس پرابھی فصل لگی ہوئی ہے۔ فصل کٹنے پراس کا پیسہ بھی قبرستان کی کمیٹی میں رکھا جائے گا۔ اب اس زمین پر ہمارے خاندان کا کوئی حق نہیں ہے۔ واضح رہے کہ دیوی ڈیرہ گاؤں میں برسوں پہلے ایک قبرستان تھا لیکن اس جگہ پر اسکول بنا دیا گیا۔ اس سے دو مسائل پیدا ہوئے۔ ایک، گاؤں کے مسلمانوں کی قبروں کا کوئی نشان نہیں بچا،دوسرا، مرنے کے بعد لاشوں کو کہاں دفن کیا جائے؟
دیوی ڈیہرا گاؤں میں تقریباً 50 مسلمان خاندان رہتے ہیں، لیکن اب تک ان کے پاس میت دفن کرنے کے لیے کوئی مخصوص جگہ نہیں تھی۔ کسی کی موت ہونے پر لاش کو پانچ کلومیٹر دور دوسرے گاؤں لے جانا پڑتا تھا جس سے اکثر تمازعات بھی ہوتے تھے۔ مجبورا ً کچھ لاشوں کو ندی۔ نالے کے کنارے دفن کرنا پڑتا تھا۔ اب زمین ملنے پر گاؤں کے مسلمانوں کی ایک بڑی پریشانی دور ہوگئی ہے۔