پہلے شوہر سے الگ ہو چکی خاتون کو دوسرے شوہر سے گزارہ بھتہ مانگنے کا حق: سپریم کورٹ

عدالت عظمیٰ نے کہا، "یاد رکھیں کہ سی آر پی سی کی دفعہ 125 کے تحت گزارہ بھتہ کا حق بیوی کو ملنے والا فائدہ نہیں ہے بلکہ شوہر کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔"

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

سپریم کورٹ نے شوہر سے الگ ہونے کے بعد بیوی کے گزارہ بھتہ کو لے کر ایک بڑا فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ایک خاتون دوسرے شوہر سے بھی گزارہ بھتہ پانے کی حقدار ہے، بھلے ہی ان کی پہلی شادی قانونی طور پر ختم نہ ہوئی ہو۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ اگر خاتون اور پہلا شوہر اتفاق سے الگ ہوئے ہیں تو قانونی طلاق نہیں ہونا اسے دوسرے شوہر سے گزارہ مانگنے سے نہیں روکتا ہے۔

تلنگانہ ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا تھا جس میں سی آر پی سی کی دفعہ 125 کے تحت خاتون کو دوسرے شوہر سے گزارہ بھتہ ملنے سے اس لیے انکار کردیا تھا، کیونکہ انہوں نے پہلے شوہر سے شادی کو قانونی طور سے ختم نہیں کیا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف خاتون کی اپیل کو قبول کر لیا ہے۔ جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس ستیش چندر شرما کی بنچ معاملے کی سماعت کر رہی تھی۔

عدالت نے کہا، "یاد رکھیں کہ سی آر پی سی کی دفعہ 125 کے تحت گزارہ کا حق بیوی کو ملنے والا فائدہ نہیں ہے بلکہ شوہر کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔"


دراصل اپیل کنندہ خاتون نے پہلے شوہر کو رسمی طور پر طلاق دیے بغیر دوسرے مرد اور اس معاملے میں مدعالیہ سے شادی کر لی تھی۔ مدعاعلیہ کو خاتون کی پہلی شادی کے بارے میں پتہ تھا۔ دونوں ساتھ رہے اور ایک بچہ بھی ہوا، لیکن اختلاف کی وجہ سے دونوں الگ ہو گئے۔

اس کے بعد خاتون نے سی آر پی سی کی دفعہ 125 کے تحت گزارہ کا مطالبہ کیا تھا، جسے فیملی کورٹ نے قبول کرلیا تھا۔ بعد میں ہائی کورٹ نے فیملی کورٹ کے حکم کو منسوخ کر دیا۔ کیونکہ پہلی شادی قانونی طور پر ختم نہیں ہوئی تھی۔ مدعاعلیہ کا جواز ہے کہ خاتون کو اس کی بیوی نہیں مانا جا سکتا کیونکہ اس نے پہلے شوہر کے ساتھ شادی قانونی طور پر ختم نہیں کی ہے۔

اب سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جب مدعاعلیہ (دوسرے شوہر) کو خاتون کی پہلی شادی کے بارے میں پتہ تھا تو ایسے میں وہ صرف اس لیے گزارہ دینے سے انکار نہیں کر سکتا ہے کیونکہ خاتون کی پہلی شادی قانونی طور پر ختم نہیں ہوئی ہے۔

عدالت نے دو باتوں پر زور دیا، پہلا یہ معاملہ مدعاعلیہ کا نہیں ہے کہ اس سے سچ چھپایا گیا تھا۔ فیملی کورٹ نے صاف طور پر کہا تھا کہ مدعاعلیہ کو پہلی شادی کی پوری جانکاری تھی۔ مددعالیہ نے اپیل کنندہ 1 کے ساتھ سب جانتے ہوئے ایک نہیں بلکہ 2 بار شادی کی۔


عدالت نے کہا، دوسرا، "اپیل کنندہ 1 نے اس عدالت کے سامنے پہلے شوہر سے الگ ہونے کا ایم او یو پیش کیا ہے۔ یہ طلاق کا قانونی ثبوت نہیں، لیکن اس دستاویز اور دیگر ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں فریق نے تعلق ختم کر لیے ہیں اور الگ رہے ہیں۔ ساتھ ہی اپیل کنندہ 1 پہلے شوہر سے گزارہ نہیں مانگ رہی ہے۔ ایسے میں اپیل کنندہ قانونی دستاویز کی غیر موجودگی میں پہلے شوہر سے الگ ہو چکی ہے اور اس شادی سے اسے کوئی حق نہیں مل رہا ہے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔