ہماچل پردیش کا ایک گاوں، جہاں صدیوں سے نہیں منائی جارہی دیوالی، جانیں کیا ہے کہانی !

رگھو ویر سنگھ رنگدا بتاتے ہیں کہ جو بھی دیوالی منانے کی کوشش کرتا ہے ،اس کے بعد کوئی ناخوشگوار واقعہ ضرور ہوجاتا ہے، کبھی کسی کی اچانک موت تو کبھی کوئی بڑا حادثہ۔

تصویر یو این آئی
i
user

قومی آواز بیورو

ملک میں جہاں روشنیوں کا تہوار دیپاولی بڑے پیمانے پر روشنی، مٹھاس اور خوشیوں کے ساتھ منایا جاتا ہے وہیں ہماچل پردیش کے ہمیر پور ضلع کا ایک گاوں سناٹے میں ڈوبا رہتا ہے۔ ضلع ہیڈ کواٹرسے تقریباً 25 کلومیٹر دور واقع سمو گاوں کو لوگ آج بھی’ملعون گاوں‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہاں دیپاولی کا محض ذکر ہی لوگوں کے چہروں پر خوف اور اداسی لے آتا ہے۔

گاوں کے بزرگوں کے مطابق یہ روایت نہیں بلکہ صدیوں پرانی بد دعا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران گاوں کی ایک حاملہ خاتون دیپاولی پر اپنے والدین کے گھر جانے کے لیے نکلی تھی۔ اسی وقت اس کے شوہر جو فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے، جنگ کے دوران شہید ہو گئے تھے۔ جب گاوں والے ان کی لاش لے کر آئے تو وہ خاتون یہ منظر دیکھ کر خود پر قابو نہ رکھ سکی اور ستی ہوگئی۔ جاتے جاتے اس نے گاوں کو بد دعا دی کہ ا ب اس گاوں میں دوبارہ کبھی دیوالی نہیں منائی جائے گی۔


میڈیا رپورٹس کے مطابق سمو گاوں میں تب سے لے کر آج تک کسی نے دیپاولی نہیں منائی۔ گھروں میں نہ دیپ روشن کئے جاتے ہیں، نہ مٹھائیاں تیار کی جاتی ہیں اور نہ ہی کوئی جشن کا ماحول ہوتا ہے۔ گاوں کے رہائشی رگھو ویر سنگھ  رنگدا بتاتے ہیں کہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو بھی دیپاولی منانے کی کوشش کرتا ہے ،اس کے بعد کوئی ناخوشگوار واقعہ ضرور ہوجاتا ہے، کبھی کسی کی اچانک موت تو کبھی کوئی بڑا حادثہ۔ ہم نے کئی بار پوجا اور رسومات ادا کیں لیکن بد دعا سے آزادی نہیں ملی۔

گاوں کی خاتون ودیا دیوی کی آواز میں بھی دیپاولی نہ منا پانے کا درد جھلکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ دیپاولی ہمارے لیے خوشی کی طرح نہیں بلکہ ایک بوجھ کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ جب چاروں طرف دیپوں کی رونق ہوتی ہے تب ہمارے گھروں میں سناٹا پسرا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ بچے بھی سمجھ گئے ہیں کہ اس دن دیئے نہیں روشن کئے جاتے۔


بھورنج پنچایت کی پردھان پوجا دیوی بھی اس روایت کی تصدیق کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سمو گاوں میں آج تک کسی نے دیپاولی نہیں منائی۔ لوگ آج بھی اس ستی کی بد دعا کے خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ سب کی یہی خواہش ہے کہ گاوں کو اس بد دعا سے نجات ملے تاکہ ایک دن یہاں بھی چراغوں کی روشنی پھیلے۔

یہ صدیوں پرانا یہ خوف آج بھی سمو گاوں کی پہچان بنا ہوا ہے۔ جہاں ملک کا ہر کونا دیپوں سے جگمگا رہا ہے، وہیں ہماچل پردیش کا یہ چھوٹا سا گاوں تاریکی میں ڈوبا رہ کر خاموشی سے اس دن کا انتظار کر رہا ہے جب بد دعا کی بیڑیاں ٹوٹ جائیں اور پہلی بار دیپاولی کا دیا جل سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔