یکساں سول کوڈ حکومت کے لیے درد سر بنتا جا رہا ہے، سکھوں نے بھی کی مخالفت

صرف مسلمان نہیں بلکہ ملک کی ہر بڑی مذہبی برادری یو سی سی کی مخالفت کر رہی ہے اور سکھوں نے کہا کہ یو سی سی ان کی شناخت کو مجروح کر رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی)، علامتی تصویر آئی اے این ایس</p></div>

یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی)، علامتی تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

یکساں سول کوڈ حکومت کے لئے درد سر بنتا جا رہا ہے۔ ہندوستان کی تقریباً ہر بڑی مذہبی برادری اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ عیسائی، قبائیلی، سکھ اور مسلم برادریاں یکساں سول کوڈ کے خلاف اپنے تحفظات رکھ رہی ہیں۔ قبائیلی پہلے ہی اس تعلق سے اپنے تحفظات بیان کر چکے ہیں اور مسلمانوں کو ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یکساں سول کوڈ انہیں کے خلاف لایا جا رہا ہے اور اب سکھ برادری بہت کھل کر اس کی مخالفت کر دی ہے۔ 

شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی یعنی ایس جی پی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی نے گہرے غور و خوض کے بعد کہا ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے تجویز کردہ یکساں سول کوڈ غیر ضروری اور سکھ برادری کے مفادات کے خلاف ہے اس لئے اس کو مسترد کیا جاتا ہے۔


انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا میں شائع خبر کے مطابق ایس جی پی سی کے صدر ہرجیندر سنگھ دھامی نے کہا کہ کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ ملک کے اندر یو سی سی کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ آئین خود اتحاد کے اصول کو برقرار رکھتا ہے۔ دھامی نے کہا کہ یو سی سی نے ملک میں اقلیتوں میں خدشات پیدا کیے ہیں کیونکہ اس نے مبینہ طور پر ان کی شناخت، انفرادیت اور اصولوں کو مجروح کیا ہے۔

یو سی سی سے متعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے سکھ دانشوروں، تاریخ دانوں، اسکالرز اور قانونی ماہرین پر مشتمل ایک ذیلی کمیٹی کے قیام کا حوالہ دیتے ہوئے، دھامی نے کہا، "کمیٹی اقلیتی برادریوں کو یکساں سول کوڈ کی طرف سے لاحق ممکنہ خطرے کو تسلیم کرتی ہے۔"


اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سکھ برادری کے مذہبی صحیفوں، تعلیمات، اصولوں، روایات، اقدار، اخلاقیات، رسم و رواج اور آزاد شناخت کو کسی بھی دنیاوی قانون کی بنیاد پر چیلنج یا جانچ نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے کہا، "اس لیے، سکھ برادری یو سی سی کی مخالفت کرتی ہے۔" دھامی نے مزید کہا کہ 21 ویں لاء کمیشن نے بھی یو سی سی کو مسترد کر دیا تھا، اس بات کا ثبوت فراہم کیا کہ اس طرح کے قوانین میں عملیت کی کمی ہے اور یہ غیر ضروری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔