وہ ٹوئٹ جس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کیا گیا حیدر آباد انکاؤنٹر!

ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا کہ ملزمین کو اس جگہ پر لے جائیں جہاں ڈاکٹر کو جلایا گیا تھا۔ وہاں کرائم سین ری کرئیٹ کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ملزمین وہاں سے بھاگنے کی کوشش کریں گے، اور پھر آپ انھیں گولی مار دینا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

حیدر آباد میں خاتون ویٹنری ڈاکٹر کی عصمت دری اور اسے زندہ جلا ڈالنے والے ملزمین کا انکاؤنٹر سرخیوں میں بنا ہوا ہے۔ اس انکاؤنٹر پر عام لوگوں میں جہاں جشن منایا جا رہا ہے وہیں ماہرین قانون اور سنجیدہ طبقہ خلاف میں آواز بلند کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس درمیان ایک ایسا ٹوئٹ سامنے آیا ہے جو کہ حیدر آباد انکاؤنٹر سے کچھ ہی دن پہلے کیا گیا تھا اور اس میں بتایا گیا تھا کہ ویٹنری ڈاکٹر کو ظلم کا شکار بنائے جانے والے لوگوں کو کس طرح کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس ٹوئٹ کے سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر سنسنی پھیل گئی ہے۔

دراصل konafanclub@ ٹوئٹر ہینڈل سے یکم دسمبر کو علی الصبح ایک ٹوئٹ کیا گیا تھا۔ اس میں پولس کو بتایا گیا تھا کہ کس طرح ملزمین کا انکاؤنٹر کیا جانا چاہیے۔ 6 دسمبر کو حیدر آباد پولس انکاؤنٹر کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بالکل ویسا ہی پیش آیا جیسا کہ ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا۔ انکاؤنٹر کے بعد سوشل میڈیا پر لوگ اس ٹوئٹ کو خوب شیئر کر رہے ہیں اور امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ شاید پولس نے اس ٹوئٹ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے جمعہ کے روز ملزموں کو موت کی نیند سلا دیا۔


کچھ نیوز پورٹل پر شائع خبر کے مطابق ٹوئٹ میں حیدر آباد پولس سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ ’’سر، اگر آپ انھیں سزا دینا چاہتے ہیں تو ان سب کو اس جگہ پر لے جائیں جہاں خاتون ڈاکٹر کو جلایا گیا تھا۔ وہاں کرائم سین ری کرئیٹ کریں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ملزم وہاں سے بھاگنے کی کوشش کریں گے۔ اتنا ہی نہیں، مجھے یہ بھی پورا یقین ہے کہ اس کے بعد پولس کو ان پر گولی چلانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ برائے کرم اس بارے میں ایک بار سوچیے۔‘‘


یہاں قابل ذکر یہ ہے کہ جس ٹوئٹر ہینڈل سے یہ ٹوئٹ کیا گیا وہ مصدقہ نہیں ہے، اور یہ اکاؤنٹ اب ڈیلیٹ بھی کر دیا گیا ہے۔ ایک نیوز پورٹل کے مطابق ٹوئٹر ہینڈل کے بارے میں تفتیش کرنے پر پتہ چلا کہ اسی سال فروری میں کسی سافٹ ویئر انجینئر نے اسے بنایا تھا جو کہ اب ختم ہو چکا ہے۔ بہر حال، سوشل میڈیا پر لوگ کہہ رہے ہیں کہ شاید حیدر آباد کی پولس نے اس ٹوئٹ کو بہت سنجیدگی سے لیا۔ لوگ ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ شیئر کر رہے ہیں اور پولس کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔