مہاراشٹر میں صرف دو لوگوں کی حکومت، کیا ایسی حکومت کے فیصلے آئینی طور پر درست ہیں؟

ماہر قانون پروفیسر ہری نارکے کا کہنا ہے کہ دونوں وزراء نے جو فیصلے لیے ہیں وہ آئین کے مطابق درست نہیں ہیں۔

فڈنویس، ایکناتھ شندے / Getty Images
فڈنویس، ایکناتھ شندے / Getty Images
user

نوین کمار

مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے اور نائب وزیر اعلی دیویندر فڈنویس شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی مہاوکاس اگھاڑی حکومت کے ترقی سے متعلق تقریباً ہر فیصلے کو تبدیل کرنے اور مختلف ترقیاتی کاموں کے فنڈز کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا شندے-فڈنویس جوڑی کی حکومت جائز ہے اور اس کے فیصلے آئینی ہیں؟ یہ سوال اس لئے اٹھ رہا ہے کیونکہ اسے شندے-فڈنویس حکومت کہا جا رہا ہے اور کابینہ میں صرف دو لوگ ہیں!

ماہر قانون پروفیسر ہری نارکے کا کہنا ہے کہ دونوں وزراء نے جو فیصلے لیے ہیں وہ آئین کے مطابق درست نہیں ہیں۔ مہاراشٹر لیجسلیچر کے سابق سکریٹری ڈاکٹر اننت کالسے کے مطابق ریاستی کابینہ کے ارکان کی زیادہ سے زیادہ تعداد تو مقرر ہی ہے، ساتھ ہی اس میں کم از کم 12 ارکان ہونے چاہئیں۔ صرف دو ارکان پر مشتمل کابینہ کے اجلاس میں کیے گئے فیصلے کو آئینی حیثیت حاصل نہیں۔ ڈاکٹر کالسے کے مطابق آئین کے آرٹیکل 164(1)(a) کے تحت ریاست کے وزرا کی کل تعداد کا 15 فیصد یا ریاستی کابینہ میں کم از کم 12 وزرا کا ہونا لازمی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے کے 10 دن کے اندر کم از کم 12 افراد پر مشتمل کابینہ تشکیل دینا لازمی ہے۔ اپوزیشن ذرائع کے مطابق اسی بنیاد پر عدالت جانے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہے۔


ویسے ماضی میں بھی مہاراشٹر میں ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ ممبئی میں 26/11 کے دہشت گردی کے واقعے کے بعد ریاست کی سیاسی قیادت کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور 8 دسمبر 2008 کو کانگریس کے اشوک چوہان وزیر اعلیٰ بنے۔ 2009 کے انتخابات کے بعد چوان کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بنایا گیا اور این سی پی کے اجیت پوار نائب وزیر اعلیٰ بنے۔ دونوں محکمہ داخلہ کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ کئی دیگر مسائل پر کانگریس-این سی پی کے درمیان رسہ کشی جاری رہی اور اپوزیشن نے تاخیر کے حوالہ سے حملہ کرنا شروع کر دیا تو 10 دن تو نہیں لیکن 15 دن میں کابینہ تشکیل دے دی گئی۔

تمام پارٹیوں نے وقت کی اس آئینی پابندی کا خیال رکھا ہے لیکن شندے-فڈنویس حکومت، جو اب ایک مہینہ پورا کرنے جا رہی ہے، اسے اس کی کوئی پروا نہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ شندے ہر ممکن طریقے سے کوشش کر رہے ہیں کہ ادھو ٹھاکرے کو ناراض نہ کیا جائے۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں ہونے کے باوجود وہ اور ان کے حامیوں کو خوف ہے کہ اگلے انتخابات میں سیاسی میدان پھسل سکتا ہے۔ ایسے میں شندے این سی پی کو ہراساں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے این سی پی لیڈر اور اجیت پوار کے ترقیاتی کاموں کو روک دیا ہے، جو مہاوکاس اگھاڑی حکومت میں وزیر خزانہ تھے۔


نئی حکومت کے فیصلے کی وجہ سے پونے اربن ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے 941 کروڑ روپے کے ترقیاتی کام روک دیئے گئے ہیں۔ اس میں بارامتی میونسپل کونسل کے کانگریس اور این سی پی لیڈروں کے تجویز کردہ ترقیاتی کام شامل ہیں۔ اجیت پوار سے فڈنویس کی ناراضگی بھی سمجھ میں آتی ہے۔ پچھلی بار فڈنویس نے اجیت پوار کے بھروسے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا تھا لیکن آخرکار اجیت اپنی پارٹی میں واپس آ گئے اور فڈنویس کا خواب ادھورا رہ گیا۔ ویسے شندے-فڈنویس حکومت نے سابق وزیر چھگن بھجبل اور سابق وزیر اعلی اشوک چوہان کے علاقوں میں بھی ترقیاتی کام روک دیئے ہیں۔

شندے کی حمایت کرنے والے ارکان اسمبلی کا استدلال ہے کہ انہوں نے رخ بدل لیا کیونکہ ان کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز نہیں دیئے جا رہے تھے، جبکہ اس وقت کے وزیر خزانہ پوار نے اپنی پارٹی-این سی پی ارکان اسمبلی کو فنڈز کی کمی نہیں ہونے دی تھی۔ اسی بنیاد پر اب شندے نے اپنے حامیوں کے ساتھ بی جے پی ارکان اسمبلی کو 5 کروڑ روپے کے فنڈز کا اعلان کیا ہے۔ اس سے شیو سینا کے باغیوں اور بی جے پی ارکان اسمبلی کو اپنے علاقوں میں خرچ کر کے سیاسی فائدہ اٹھانے میں مدد ملے گی۔


سیاسی تجزیہ کار وویک بھوسار کا ماننا ہے کہ اگھاڑی حکومت میں این سی پی کے پاس شہری ترقی، سماجی ترقی، دیہی ترقی، محکمہ زراعت، خوراک اور شہری محکمے تھے، جس کے ذریعے این سی پی اپنی رسائی کو عام لوگوں تک بڑھا رہی تھی۔ اب ان محکموں کے ذریعے شندے دھڑے کی شیو سینا اور بی جے پی اپنا غلبہ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن سیاسی تجزیہ کار ابھیمنیو شیتولے کہتے ہیں کہ ہر نئی حکومت سیاسی انتقام لیتی ہے لیکن اس جذبہ انتقام کی وجہ سے بہت سے ترقیاتی کام رک جاتے ہیں اور عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

شیتولے یہ بھی بتاتے ہیں کہ جس طرح سے ادھو حکومت کے فیصلے کو الٹ کر آرے کارشیڈ کو منظوری دی گئی ہے، اس سے یہ بھی واضح ہے کہ بلڈروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ویسے، یہ بھی واضح ہے کہ شندے-فڈنویس ادھو سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ یہ دکھانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنا کام آگے بڑھا رہے ہیں۔


وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے سے پہلے اپنی آخری کابینہ کی میٹنگ میں ادھو حکومت نے اورنگ آباد کا نام چھترپتی سمبھاجی نگر، عثمان آباد کا نام دھاراشیو اور نوی ممبئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کو مقبول لیڈر ڈی بی پاٹل بین الاقوامی ہوائی اڈے کے طور پر تبدیل کرنے کی تجاویز کو منظوری دی تھی۔ لیکن شندے کی کابینہ نے ادھو کے نام کی تجاویز کو دوبارہ منظوری دے دی ہے۔ اس کے بارے میں شندے نے دلیل دی کہ ادھو حکومت نے جلد بازی میں فیصلہ لیا تھا، اس لیے ہماری حکومت نے مکمل اکثریت کے ساتھ کابینہ میں اس کی منظوری دی ہے۔

فڈنویس نے یہ بھی کہا کہ اب حکومت مہاراشٹر مقننہ میں ان تمام تبادلوں کی تجویز حاصل کرے گی اور اسے مرکزی حکومت کو بھیجے گی۔ وہاں سے اجازت ملنے کے بعد نام کی تبدیلی کا عمل مکمل کیا جائے گا۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ جب ریاست میں فڈنویس کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت تھی تب بھی ان تبادلوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن تب فڈنویس نے بدلنے کی ہمت نہیں کی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔