کرسی بچانے کے لیے آگرہ کی پرنسپل نے تیار کی تھی ’نفرت کی جھوٹی کہانی‘، پولیس جانچ میں کھل گئی قلعی

وائرل ویڈیو میں پرنسپل ممتا دیکشت نے بتایا تھا کہ کچھ لوگ انھیں پرنسپل کے عہدہ سے ہٹانا چاہتے ہیں اس لیے مسلم طبقہ کی سبھی طالبات اور اساتذہ مل کر سازش کر رہے ہیں۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
user

آس محمد کیف

آگرہ کی جس پرنسپل نے اسکول میں اقلیتی سماج کے بچوں کی اکثریت ہونے پر خود کو مذہبی استحصال کی شکار ظاہر کیا تھا، اس کی شرمناک کرتوت کا انکشاف ہو گیا ہے۔ آگرہ ضلع کے ڈی آئی او ایس افسر کی جانچ میں پایا گیا ہے کہ مذکورہ پرنسپل نے اسکول کی دوسری خاتون اساتذہ کی رنجش میں نفرت کی کہانی خود تیار کی اور مسلم سماج کی خاتون اساتذہ اور بچوں کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے ویڈیو کو وائرل کر دیا۔

ہیرس گرلس انٹر کالج کی پرنسپل ممتا دیکشت
ہیرس گرلس انٹر کالج کی پرنسپل ممتا دیکشت

واضح رہے کہ آگرہ کے جوائے ہیرس گرلس انٹر کالج کی پرنسپل ممتا دیکشت نے اسکول کی مسلم خاتون اساتذہ اور طالبات پر الزام لگاتے ہوئے ایک ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا تھا جس میں ممتا دیکشت کا کہنا تھا کہ اسکول کی مسلم خاتون اساتذہ لڑکیوں کو حجاب پہننے کے لیے اکساتی ہیں۔ اس ویڈیو کے پھیلتے ہی معاملے نے طول پکڑ لیا۔ فی الحال جانچ میں مسلم خاتون اساتذہ پر لگائے گئے سبھی الزامات غلط پائے گئے ہیں۔


وائرل ویڈیو میں پرنسپل ممتا دیکشت نے بتایا تھا کہ کچھ لوگ انھیں پرنسپل کے عہدہ سے ہٹانا چاہتے ہیں اس لیے مسلم طبقہ کی سبھی طالبات اور اساتذہ مل کر میرے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ وہ مجھے پریشان کرتے ہیں تاکہ میں واپس لوٹ جاؤں۔ انھوں نے ویڈیو میں یہ بھی بتایا تھا کہ اسکول کی مسلم خاتون اساتذہ نے گروپ بنا لیا ہے اور وہ ان کے خلاف طالبات کو بھڑکا رہی ہیں۔ اسکول میں حجاب اور برقع پہن کر آنے کے لیے مسلم لڑکیوں کو اکسایا جا رہا ہے تاکہ کالج کا ماحول بگڑے۔ جب حجاب کی مخالفت کی جاتی ہے تو دھمکایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ دفتر میں موجود سرسوتی ماں کی تصویر بھی ہٹانے کے لیے کہا گیا۔

ویڈیو میں ممتا دیکشت بتاتی ہیں کہ کالج میں 70 فیصد طالبات مسلم طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں اور اس وجہ سے کالج میں خاص مذہب کے ایجنڈے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ کالج کے باہر صبح میں اور چھٹی کے وقت مسلم لڑکوں کی بھیڑ جمع رہتی ہے جو سنگین معاملہ ہے۔ یہ لوگ نعرہ بازی بھی کرتے ہیں۔ پرنسپل کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس طرح کے حالات ہیں ایسے میں انھیں گھر جانے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ کالج کی ایک سینئر ٹیچر پرنسپل عہدہ کی کرسی حاصل کرنے کے لیے یہ سب کچھ کروا رہی ہیں۔

کرسی بچانے کے لیے آگرہ کی پرنسپل نے تیار کی تھی ’نفرت کی جھوٹی کہانی‘، پولیس جانچ میں کھل گئی قلعی

اس ویڈیو کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد معاملہ بہت زیادہ پھیل گیا۔ ہندوتوا تنظیموں کے لوگ پرنسپل کی حمایت میں آواز اٹھانے لگے۔ پھر جیسے ہی یہ معاملہ افسروں تک پہنچا، معاملے کی جانچ شروع کی گئی۔ ضلع اسکول انسپکٹر اور ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ کے ذریعہ کی گئی جانچ میں پرنسپل کے ذریعہ لگائے گئے سبھی الزامات غلط ثابت ہوئے۔ الزامات کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اے سی ایم اوّل دویا سنگھ، ڈی آئی او ایس منوج کمار اور کینٹ سے بی جے پی رکن اسمبلی ڈاکٹر جی ایس دھرمیش بھی اسکول پہنچے۔ اس دوران اساتذہ اور طالبات سے پوچھ تاچھ کی گئی اور کالج میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج بھی دیکھی گئی۔

جانچ کے دوران کسی بھی ٹیچر نے پرنسپل کے ذریعہ عائد کردہ الزامات پر اتفاق ظاہر نہیں کیا۔ ساتھ ہی سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کیا گیا تو اس میں بھی کوئی ایسا منظر دکھائی نہیں دیا۔ آگرہ کے ڈی آئی او ایس کے مطابق پرنسپل کے ذریعہ عائد کیے گئے سبھی الزامات بے بنیاد پائے گئے۔ ڈی آئی او ایس منوج کمار نے بتایا کہ پوچھ تاچھ کے دوران پرنسپل کی آپسی رنجش کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ برقع پہن کر آنے کی شکایت پر 2 دن کی فوٹیج کی جانچ کی گئی لیکن الزام غلط نکلا ہے۔


اسکول کی ایک خاتون ٹیچر گلفشاں کا کہنا ہے کہ سارے الزامات پہلے سے ہی غلط تھے۔ یہ پورا معاملہ غیر قانونی طور سے فیس وصولی کی شکایت سے دھیان بھٹکانے کا ہے۔ پرنسپل بچوں سے زیادہ فیس وصولنے کا دباؤ بنا رہی تھی۔ جب اساتذہ نے منع کیا تو انھوں نے ویڈیو وائرل کر ماحول بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔

مقامی باشندہ ندیم منصوری نے اس تعلق سے بتایا کہ یہ واقعہ انتہائی شرمناک ہے اور یہاں کچھ دن پہلے اسکول کی طالبات نے پرنسپل پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے ان کو عہدہ سے ہٹانے کے لیے مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے بعد پرنسپل کو لگا کہ اگر وہ خود کو اکثریتی سماج کی مظلوم ظاہر کریں تو ہمدردی اور موجودہ حالات کے سبب حمایت مل سکتی ہے۔ اسی لیے انھوں نے یہ جھوٹی کہانی تیار کی۔ معاملہ نے طول بھی پکڑ لیا اور ہندو تنظیمیں سرگرم بھی ہو گئیں، لیکن انتظامیہ نے سب صاف کر دیا۔


واضح رہے کہ جوئے ہیرس گرلس انٹر کالج میں 28 اسٹاف ہیں۔ ان میں سے صرف دو ہی ٹیچر مسلم ہیں۔ علاوہ ازیں اسکول میں تقریباً 1000 طالب علم ہیں جن میں سے تقریباً 700 کا تعلق مسلم طبقہ سے ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */