اومیکرون سے فوت ہونے والے 10 میں 9 افراد نے کورونا کا ٹیکہ نہیں لگوایا تھا، تحقیق میں انکشاف

کورونا کے اومیکرون ویرینٹ پر کی گئی ’آئی سی ایم آر‘ کی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ اس لہر میں مرنے والے 10 میں سے 9 لوگ ایسے تھے جنہیں ویکسین نہیں لگی تھی

اومیکرون، تصویر آئی اے این ایس
اومیکرون، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: اومیکرون ویرینٹ کی وجہ سے آنے والی کورونا کی تیسری لہر اب کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ دریں اثنا، انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ یعنی آئی سی ایم آر کی ایک تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ اومیکرون کی وجہ سے فوت ہونے والے 10 میں سے 9 افراد ایسے تھے جنہوں نے ویکسین نہیں لی تھی۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ تیسری لہر دوسری لہر کی طرح مہلک ثابت نہیں ہوئی کیونکہ ملک کے بیشتر افراد کورونا کا ٹیکہ لگوا چکے تھے۔

آئی سی ایم آر کے ڈی جی ڈاکٹر بلرام بھارگوا نے بتایا کہ دونوں خوراکیں لینے کے بعد بھی متاثرہ افراد کی موت کی شرح محض 10 فیصد تھی، جبکہ ویکسین نہ لینے والوں میں اموات کی شرح 22 فیصد تھی۔ آئی سی ایم آر کے مطابق، موت کا خطرہ ان لوگوں کے لیے زیادہ ہے جنہوں نے ویکسین نہیں لی ہے۔ ڈاکٹر بھارگوا نے بتایا کہ ویکسین لینے کے باوجود جن لوگوں کی موت واقع ہوئی ان ان میں 10 میں سے 9 افراد ایسے تھے جو پہلے ہی کسی سنگین بیماری میں مبتلا تھے۔


یہ باتیں آئی سی ایم آر کی نیشنل کلینیکل رجسٹری آف کووڈ-19 کی تحقیق میں سامنے آئی ہیں۔ اس تحقیق کے لیے مختلف اوقات کا ڈیٹا لیا گیا۔ ڈاکٹر بھارگوا نے کہا کہ ایک دور 15 نومبر سے 15 دسمبر تک کا تھا، جس میں ڈیلٹا ویرینٹ غالب تھا اور دوسرا دور 16 دسمبر سے 17 جنوری تک کا تھا، جس میں اومیکرون کا غلبہ تھا۔

ڈاکٹر بھارگوا نے کہا کہ نوجوانوں کی آبادی پچھلی لہروں کے مقابلے اس لہر میں زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس لہر میں متاثرہ افراد کی اوسط عمر 44 سال تھی۔ جبکہ گزشتہ لہروں میں اوسط عمر 55 سال تھی۔

ملک میں ہسپتال میں داخل 1520 مریضوں پر کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس لہر میں کو-موبیٹی والے مریضوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ڈاکٹر بھارگوا نے بتایا کہ اس لہر میں متاثر ہونے والے نوجوانوں میں سے 46 فیصد کو کوئی نہ کوئی سنگین بیماری تھی۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مریضوں میں اضافے کے باوجود اس لہر میں ادویات کا استعمال کم ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ اس لہر میں زیادہ تر مریضوں کو گلے کی سوزش کا مسئلہ در پیش تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔