کشمیر میں ہڑتال کا 88واں دن، معمولات زندگی ہنوز متاثر

وادی کشمیر میں جمعرات کے روز بھی غیر اعلانیہ ہڑتال کا سلسلہ جاری رہا اور یہ 88ویں دن میں پہنچ گیا۔ اس غیر اعلانیہ ہڑتال کی وجہ سے معمولات زندگی بھی حسب سابق متاثر رہا

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

سری نگر: وادی کشمیر میں جمعرات کے روز بھی غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہتے ہوئے 88 ویں دن بھی معمولات زندگی متاثر رہے۔ اس دوران ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست (جموں وکشمیر) جمعرات کو جموں وکشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت باضابطہ طور پر دو حصوں میں منقسم ہوکر ’یونین ٹریٹری آف جموں وکشمیر‘ اور ’یونین ٹریٹری آف لداخ‘ میں تبدیل ہوگئی۔

بتادیں کہ وادی کشمیر میں پانچ اگست، جس دن مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر کو آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات منسوخ کئے اور ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں منقسم کرنے کا اعلان کیا، کو غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے۔


لداخ کے مسلم اکثریتی ضلع کرگل میں جمعرات کو تیسرے دن بھی ہڑتال رہی۔ کرگل میں 31 اکتوبر، جب 'یونین ٹریٹری آف لداخ' کے پہلے لیفٹیننٹ گورنر رادھا کرشنا ماتھر نے بودھ اکثریتی لیہہ میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، کو 'یوم سیاہ' کے طور پر منایا گیا۔ کرگل میں مختلف جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم 'جوائنٹ ایکشن کمیٹی' کا الزام ہے کہ لداخ کو یونین ٹریٹری کا درجہ دیے جانے کے ساتھ ہی کرگل کے ساتھ نا انصافی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، وہ نا انصافیوں کو فوراً سے پیشتر ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق جمعرات کے روز بھی وادی کے یمین ویسار میں ہڑتال رہی اور تمام بازار بند رہے، تجارتی سرگرمیاں معطل رہیں اور سڑکوں پرپبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل متاثر رہی تاہم نجی گاڑیوں کی جزوی نقل وحمل جاری رہی۔

ادھر وادی میں پانچ اگست ریل سروس مسلسل معطل ہے۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریل سروس کو لوگوں، ریلوے عملے اور املاک کے تحفظ کے لئے معطل رکھا گیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف انتظامیہ یہاں حالات ٹھیک ہونے کے دعوے کررہی ہے تو دوسری طرف ریل سروس گزشتہ قریب تین ماہ سے مسلسل بند ہے جس سے لوگوں کو گوناگوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
شہر سری نگر کے تمام علاقوں بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں جمعرات کے روز بھی ہڑتال رہی جس کے نتیجے میں تمام چھوٹے بڑے بازار بند رہے اور تجارتی سرگرمیاں معطل رہیں، سڑکوں پر اگرچہ نجی گاڑی چلتی رہیں لیکن پبلک ٹرانسپورٹ معطل ہی رہا۔


وادی کے دیگر ضلع صدر مقامات وقصبہ جات میں بھی جمعرات کو بھی ہڑتال کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر رہے اور بازار بند اور تجارتی سرگرمیاں معطل رہیں تاہم سڑکوں پر نجی گاڑیوں کی جزوی نقل وحمل جاری رہی۔ وادی میں اگرچہ مواصلاتی ذارئع پر عائد پابندی کو بتدریج ہٹایا جارہا ہے لیکن براڈ بینڈ و موبائیل انٹرنیٹ پر پابندی ہنوز جاری ہے جس کے باعث لوگوں بالخصوص صحافیوں اور طلبا کو متنوع مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

صحافیوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی معطلی کی وجہ سے انہیں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے چھوٹے کمرے، جہاں سہولیات کا فقدان ہے، میں اپنا پیشہ ورانہ کام کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے انتطامیہ سے کم سے کم براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔
مسابقتی امتحانات و دیگر سالانہ امتحانوں کی تیاریوں میں مصروف طلبا بھی انٹرنیٹ کی مسلسل معطلی کے باعث پریشان ہیں اور انہوں نے بھی انتظامیہ سے انٹرنیٹ خدمات بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وادی کے سرکاری دفاتر اور بنکوں میں اگرچہ معمول کا کام کاج بحال ہورہا ہے لیکن تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کا عمل معطل ہی ہے۔ تاہم جموں کشمیر سٹیٹ بورڑ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے لئے جانے والے دسویں اور بارہویں جمارت کے امتحانات شروع ہوئے ہیں۔


دریں اثنا پانچ اگست سے محبوس سیاسی لیڈروں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اب تک نصف درجن چھوٹے بڑے لیڈروں کو رہا گیا گیا ہے۔ تاہم نشینل کانفرنس کے صدر و سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ پی ایس اے کے تحت اپنی رہائش گاہ پر محصور ہیں جبکہ اُن کے فرزند وسابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ہری نواس میں ایام اسیری کاٹ رہے ہیں۔ پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی فی الوقت نظر بند ہی ہیں۔

مزاحمتی لیڈران بشمول سید علی گیلانی و میرواعظ عمر فاروق بھی مسلسل خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ وادی میں قریب تین ماہ سے جاری غیر یقینی صورتحال کے بیچ ہی ماہ رواں کی 24 تاریخ کو ریاست کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہونے والے بلاک ترقیاتی کونسل انتخابات بھی منعقد ہوئے جن میں مقامی سیاسی جماعتوں اور قومی جماعت نیشنل کانفرنس نے حصہ نہیں لیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔