کشمیر میں ہڑتال کا 80 واں دن، معمولات زندگی بدستور متاثر

ہر گزرتے دن کے ساتھ جہاں سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی آمدورفت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے وہیں اب چھوٹی مسافر گاڑیاں بھی سڑکوں پر دوڑنے لگی ہیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: وادی کشمیر میں بدھ کے روز غیر اعلانیہ ہڑتال کے 80 ویں دن بھی معمولات زندگی تواتر کے ساتھ متاثر رہے۔ تاہم ہر گزرتے دن کے ساتھ جہاں سڑکوں پر نجی ٹرانسپورٹ کی آمدورفت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے وہیں اب چھوٹی مسافر گاڑیاں بھی سڑکوں پر دوڑنے لگی ہیں جس کے نتیجے میں سڑکوں پر ٹریفک جام بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ بتادیں کہ مرکزی حکومت کے پانچ اگست کے جموں کشمر کو حاصل خصوصی درجہ دینے والے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی منسوخی اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے اعلان کے خلاف وادی میں غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق بدھ کے روز بھی وادی کے اطراف و اکناف میں ہڑتال کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر رہے۔ شہر سری نگر کے تمام علاقہ جات بشمول تجارتی مرکز لالچوک میں دن بھر بازاروں میں تمام دکان مقفل رہے، تجارتی سرگرمیاں معطل اور سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب رہا تاہم نجی ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل معمول سے زیادہ ہی دیکھی گئی جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں صبح کے وقت لوگوں کو ٹریفک جام سے دوچار ہونا پڑا۔ عینی شاہدین کے مطابق سری نگر کے بتہ مالو، پولو ویو، رزیڈنسی روڑ، لالچوک، جہانگیر چوک، ڈل گیٹ، بتہ مالو وغیرہ میں چھاپڑی فروشوں کو گرم ملبوسات، سبزیاں، پھل وغیرہ بیچتے ہوئے دیکھا گیا۔

کشمیر میں ہڑتال کا 80 واں دن، معمولات زندگی بدستور متاثر

شہر سری نگر کی طرح وادی کے دوسرے ضلع صدر مقامات و قصبہ جات میں بھی بدھ کے روز دن بھر بازار بند رہے اور تجارتی سرگرمیاں مفلوج رہیں اورسڑکیں پبلک ٹرانسپورٹ سے خالی رہیں تاہم نجی ٹرانسپورٹ حسب معمول جاری رہا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سری نگر کے تمام بازار بدھ کے روز بھی علی الصبح کھل گئے اور بعد ازاں دس بجنے سے قبل ہی یکایک بند ہوگئے اور وادی کے دوسرے علاقوں میں بازار شام کو کھل گئے جس دوران لوگوں نے اشیائے ضروریہ کی جم کی خریداری کی۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ اب یہاں صبح اور شام کے وقت شاپنگ کرنا ایک معمول کی صورت اختیار کر گیا ہے اور ہر شخص اب اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لئے صبح یا شام کے وقت ہی گھر سے نکلتا ہے۔ وادی میں سرکاری دفاتر اور بنکوں میں اگرچہ کام کاج رفتہ رفتہ بحال ہورہا ہے لیکن تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کا عمل برابر معطل ہے۔ تعلیمی ادارے کھلے رہتے ہیں اور عملہ بھی ان میں حاضر رہتا ہے لیکن طلبا کلاس روموں کے بجائے گھروں میں رہنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ موجودہ غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر والدین بھی اپنے بچوں کو اسکول یا کالج بھیجنے میں ہچکچاتے ہیں۔

کشمیر میں ہڑتال کا 80 واں دن، معمولات زندگی بدستور متاثر

علاوہ ازیں مواصلاتی نظام پر بھی جاری پابندی پر بھی بتدریج تخفیف لائی جارہی ہے۔ پہلے لینڈ لائن سروس کو بحال کیا گیا بعد ازاں پوسٹ پیڈ موبائل سروس کو بھی بحال کیا گیا تاہم براڈ بینڈ اور موبائل انٹرنیٹ خدمات گزشتہ زائد از ڈھائی ماہ سے مسلسل معطل ہیں جو مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے سوہان روح بن گیا ہے۔ صحافیوں اور طلبا کو انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔

انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کے ساتھ ساتھ قومی دھارے اور حریت کے درجنوں چھوٹے بڑے قائدین بھی لگاتار خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ ننیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اپنی رہائش گاہ پر ہی پی ایس کے تحت بند ہیں جبکہ ان کا بیٹا اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ بھی ہری نواس میں مسلسل زیر حراست ہیں۔ پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی نظر بند ہیں جبکہ حریت کانفرنس (گ) کے چیرمین سید علی گیلانی حیدر پورہ میں واقع اپنی راہئش گاہ پر نظر بند ہیں اور حریت کانفرنس (ع) میر واعظ عمر فاروق بھی نگین میں واقع اپنی ہی رہائش گاہ پر نظر بند ہیں۔


قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر میں گزشتہ زائد از ڈھائی ماہ سے غیر اعلانیہ ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہونے سے قبل انتظامیہ کی طرف سے جاری ایک ایڈوائزری، جس میں یہاں مقیم سیاحوں اور یاتریوں کو وادی چھوڑنے کی ہدایات دی گئی تھیں، کے نتیجے میں یہاں ہرسو سراسیمگی اور عدم تحفظ کے بادل سایہ فگن ہوگئے تھے جس کے پیش نظر ہزاروں کی تعداد غیرریاستی مزدور و کاریگر بھی وادی کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔