کشمیر میں ہڑتال کا 76 واں دن، معمولات زندگی بدستور متاثر

موصولہ اطلاعات کے مطابق سری نگر کے تمام علاقوں میں ہفتے کے روز بھی دن بھر بازاروں میں تمام دکانیں مقفل رہیں اور تجارتی سرگرمیاں بھی معطل رہیں، سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب رہا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سری نگر: مرکزی حکومت کی طرف سے 5 اگست کے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی منسوخی اور ریاست کو دو حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی کشمیر میں غیر اعلانیہ ہڑتال تواتر کے ساتھ جاری ہے جس کے نتیجے میں ہفتہ کے روز 76 ویں روز بھی جوں کی توں صورتحال جاری رہنے کے باعث معمولات زندگی متاثر رہے۔ وادی بھر میں دن بھر بازار بند، تجارتی سرگرمیاں مفلوج اور سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل غائب رہی تاہم نجی گاڑیوں کا رش برابر جاری رہا۔

کشمیر میں ہڑتال کا 76 واں دن، معمولات زندگی بدستور متاثر

ادھر سرکاری دفاتر میں کام کاج بھی رفتہ رفتہ بحال ہو رہا ہے اور بنکوں میں بھی کام کاج جاری رہا۔ سرکاری وغیر سرکاری تعلیمی ادارے بھی اگرچہ کھلے رہے لیکن ان میں عملے کو تو دیکھا گیا لیکن طلبا کی حاضری نہ کے ہونے کے برابر ہی درج کی گئی۔ سری نگر کے بعض حساس علاقوں میں جو بندشیں جمعہ کے روز بنا بر احتیاط عائد کی گئی تھیں انہیں ہفتے کی صبح ہی ہٹایا گیا تھا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق سری نگر کے تمام علاقوں میں ہفتے کے روز بھی دن بھر بازاروں میں تمام دکانیں مقفل رہیں اور تجارتی سرگرمیاں معطل رہیں سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب رہا تاہم نجی گاڑیوں کی نقل وحمل جاری رہی۔ سری نگر کے بیشتر علاقوں میں ہفتہ کے روز بھی علی الصبح بازار کھل گئے اور لوگوں نے اشیائے ضروریہ کی جم کر خریداری کی تاہم بعد ازاں دس بجنے سے قبل ہی بازار بند ہوئے اور لوگوں کی گہماگہمی بھی قدرے مفقود ہوگئی۔

کشمیر میں ہڑتال کا 76 واں دن، معمولات زندگی بدستور متاثر

ادھر سری نگر کے تمام علاقوں بشمول تجارتی مرکز لال چوک میں بھی چھاپڑی فروشوں کی اچھی خاصی تعداد کو بر لب سڑک مختلف النوع اشیائے ضروریہ بالخصوص گرم ملبوسات کو فروخت کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ وادی کے تمام ضلع وقصبہ جات میں بھی ہفتے کے روز بازار بند رہے تاہم بعض قصبوں میں صبح کے بجائے شام کو دکانیں کھل جاتی ہیں جو بعد میں رات دس بجے تک کھلی رہتی ہیں جس دوران لوگوں کا کافی رش رہتا ہے۔ ذرائع کے مطابق وادی کی بعض سڑکوں پر دن میں ایس آر ٹی سی گاڑیوں کی جزوی نقل وحمل بھی رہی۔ انہوں نے بتایا کہ وادی کی بعض سڑکوں پر نجی گاڑیوں کے ساتھ اکا دکا ایس آر ٹی سی کی گاڑیوں کو بھی چلتے ہوئے دیکھا گیا۔

شہر سری نگر کی طرح دیگر اضلاع وقصبہ جات میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب رہا تاہم پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کی نقل وحمل میں روز افزوں اضافہ ہی ہو رہا ہے کیونکہ لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے باعث نجی گاڑیوں میں ہی سفر کر رہے ہیں۔ ادھر انتظامیہ کی طرف سے تعلیمی اداروں کو کھولنے کے اعلانات کے باوجود تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کا عمل بحال ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے کیونکہ تعلیمی اداروں میں عملہ تو موجود رہتا ہے لیکن طلبا گھروں میں بیٹھنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ تاہم جموں کشمیر اسٹیٹ بورڑ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف دسویں اور بارہویں جماعت کے لئے ڈیٹ شیٹ جاری کرنے کے پیش نظر اسکولوں میں طلبا کا رش بڑھ گیا ہے۔


ایک استاد نے اپنا نام مخفی رکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے یو این آئی اردو کو بتایا کہ طلبا امتحانی فارم اور اس سے متعلق دیگر امور کی انجام دہی اور امتحان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے اسکول آتے ہیں جس کی وجہ سے اسکولوں میں طلبا کے آنے کا رش بڑھ گیا ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ حالات کے بیچ بچوں کو اسکول یا کالج بھیجنے میں مختلف النوع خطرات محسوس کررہے ہیں۔ وادی میں مواصلاتی ذرائع پر جاری پابندی میں بتدریج تخفیف لائی جارہی ہے، پہلے لینڈ لائن سروس کو بحال کیا گیا بعد ازاں پیر کے روز پوسٹ پیڈ موبائل سروس کو بھی بحال کی گئی تاہم براڑ بینڈ اور موبائیل انٹرنیٹ خدمات گزشتہ قریب ڈھائی ماہ سے مسلسل معطل ہیں جو مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے سوہان روح بن گیا ہے۔ صحافیوں اور طلبا کو انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔

انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کے ساتھ ساتھ قومی دھارے اور حریت کے درجنوں چھوٹے بڑے قائدین بھی لگاتار خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ ریاست کے تین سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی حراست میں ہیں جبکہ نیشنل کانفرنس کے صدر اور تین بار وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان رہنے اور دو بار رکن پالیمان کا اعزاز حاصل کرے والے ڈاکٹر فاروق عبداللہ پی ایس اے کے تحت اپنی رہائش گاہ پر محصور ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ مرکزی حکومت نے پانچ اگست کو جموں کشمیر کو خصوصی درجہ سے نوازنے والے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو منسوخ کرنے اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ متذکرہ اعلان سے قبل ایک ایڈوائزری جاری کی گئی جس میں وادی میں قیام پذیر سیاحوں اور یاتریوں کو فی الفور وادی چھوڑنے کی ہدایات دی گئیں تاہم حال ہی میں اس ایڈوائزری کو واپس لیا گیا اور سیاحوں کو وادی آنے کی دعوت دی گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */