مظفر نگر فساد کے 7 سال بعد: کتابیں تو وہیں چھوٹ گئی تھیں، اب تو خواہشیں مزدوری کر رہی ہیں!

2013 کے مظفر نگر فساد کے بعد پھگانا سے تقریباً 1800 مسلمانوں نے ہجرت کی۔ کسی بھی ایک گاؤں میں اتنی تعداد میں ہوئی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی۔

مظفر نگر فساد متاثرین
مظفر نگر فساد متاثرین
user

آس محمد کیف

مظفر نگر: 2013 کے مظفر نگر فسادات کو ملک میں آج کے بالکل بدل چکے ماحول کے لیے ذمہ دار مانا جا سکتا ہے۔ مغربی اتر پردیش کے اس گڑ کی مٹھاس کے لیے مشہور ضلع میں ظالمانہ اور شرمناک فساد کو اب 7 سال پورے ہو چکے ہیں۔ اس فساد میں سینکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے۔ لاکھوں نے ہجرت کی اور ہزاروں سرد راتوں میں کھلی چھت کے نیچے مہینوں تک رہے۔ اس دوران بہت سی تکلیف دہ کہانیاں سامنے آئیں۔ ان کہانیوں میں سے ایک تو ان بچوں کی ہے جنھوں نے فساد کے بعد اپنا اسکول چھوڑ دیا۔ ان کی کتابیں نفرت کی لگائی ہوئی آگ میں جل کر کاک ہو گئیں اور کامیاب ہو کر 'بڑا صاحب' بننے کی خواہش بھی دم توڑ گئی۔

دیانند سرسوتی ششو نکیتن جونیئر ہائی اسکول پھگانا میں ہے۔ پھگانا بڈھانا سے کرنال اور شاملی کی اہم سڑک پر ہے۔ بالکل سڑک کے کنارے۔ جابر بتاتے ہیں کہ ان کے بچے یہاں پڑھتے تھے۔ 8 ستمبر کو جب سینکڑوں لوگ ان کے گھر نعرہ بازی کرتے ہوئے چڑھ آئیں تو وہ راتوں رات جان بچا کر بھاگے اور قریب کے گاؤں لوئی پہنچ گئے۔ کتابوں کی تو بات ہی مت کیجیے، سب چھوٹ گئے۔ 7 دن پہلے بیاہ کر لائے بڑے لڑکے کی بہو کو بھی کندھے پر اٹھا کر بھاگنا پڑا۔ سوچا تھا کہ جان رہے گی تو لڑکے پڑھ بھی لیں گے۔ لیکن وہ پھر کبھی اسکول نہیں جا پائے۔ مظفر نگر کے روڑکلی میں فساد متاثرین کے لیے بنی کالونی میں رہنے والے جابر شیخ کہتے ہیں "ہمارے چار بھائیوں یعنی میرے، صابر، ارشاد اور نظام الدین کے 11 بچے اس اسکول میں پڑھتے تھے۔ ان میں سے ایک بھی بعد میں اسکول نہیں جا سکا۔ جو اس وقت چھوٹے بچے تھے، وہ ضرور اسکول گئے اور وہ اب بھی جا رہے ہیں۔


55 سالہ مزدور جابر بتاتے ہیں کہ گاؤں میں لوگ اسے شری پال کا اسکول کہتے تھے اور انھوں نے ٹی سی (ٹرانسفر سرٹیفکیٹ) نہیں دیا۔ وہ ایک بچے کو ٹی سی دینے کے لیے 1200 روپے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس کاغذ کے بغیر کوئی اسکول انھیں داخلہ نہیں دے رہا تھا۔ یہ جھگڑا ستمبر میں ہوا تھا۔ یہ اسکول کی پڑھائی کی شروعات تھی۔ اسکول کا سیشن جولائی سے شروع ہوتا تھا۔ سب کچھ برباد ہو گیا۔ مسجدیں ویران ہو گئیں، گھروں میں جل کر کتابیں راکھ ہو گئیں۔ بچے ذہنی طور پر ٹوٹ گئے۔ جب زندہ رہنا پہلی ضرورت ہو تو کتابیں یاد نہیں آتیں۔"

مظفر نگر فساد کے 7 سال بعد: کتابیں تو وہیں چھوٹ گئی تھیں، اب تو خواہشیں مزدوری کر رہی ہیں!

جابر کے سامنے بیٹھا ہوا ان کا بھتیجہ ساحل بتاتا ہے کہ "میں نویں میں تھا۔ پڑھائی میں اچھا تھا۔ میری کلاس میں پولس میں داخلہ ہونا سب کا ہدف تھا۔ ہم دوڑ لگاتے تھے۔ میں دہلی پولس میں جانا چاہتا تھا۔ میرے ساتھ کے جاٹ دوست پولس میں چلے گئے اور میں اب مزدوری کرتا ہوں۔" ساحل مزید کہتے ہیں کہ "ایسا سب کے ساتھ ہوا۔ کتابیں تو وہیں چھوٹ گئیں اور خواہشیں مزدوری کرنے لگیں!" وہ بتاتے ہیں کہ پھگانا کے اس اسکول میں 100 سے زیادہ مسلم بچے پھر کبھی اسکول نہیں گئے۔ ان کی زندگی بالکل بدل گئی۔ ان کے سپنے ٹوٹ گئے۔


2013 کے فساد کے بعد پھگانا سے تقریباً 1800 مسلمانوں نے ہجرت کی۔ کسی بھی ایک گاؤں میں اتنی تعداد میں کی گئی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی۔ اسی پھگانا تھانہ کے علاقے میں سب سے زیادہ تشدد دیکھنے کو ملا۔ بہاوڑی، محمد پور رائے سنگھ، لساڑھ جیسے گاؤں اسی علاقے میں تھے۔

بہر حال، ساحل تب 14 سال کے تھے اور اب وہ 21 کے ہیں۔ وہ حالات کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "سیاست صرف برباد کرتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن سب اپنا اپنا فائدہ نقصان کی ریاضی میں لگے ہوئے تھے۔ قتل، قاتل، گھر، ہجرت، کیمپ، عصمت دری، تبادلے، معاوضے اور ایک دوسرے پر الزام لگانے میں لگے تھے۔ انھیں کتابیں یاد نہیں تھیں۔ کاش انھیں اس کی فکر ہوتی اور ہم پڑھتے!"


اسی پھگانا سے تعلق رکھنے والے 19 سال کے جنید اب چنئی میں اپنے بڑے بھائی انتظار کے ساتھ مزدوری کرتے ہیں۔ جنید اور انتظار دونوں ریل کے ڈبوں پر رنگ چڑھاتے ہیں۔ جنید مظفر نگر فساد کے وقت 8ویں میں تھے اور انتظار 10ویں میں۔ فساد کے بعد یہ دونوں کبھی اسکول نہیں گئے۔ ان کے چچا انصاف علی بتاتے ہیں کہ "ہم کبھی نہیں پڑھے، ہمارے بچوں کو پڑھنے کی سیکھ بھی انہی چودھریوں کے بچوں کو دیکھ کر ملی تھی اور انھوں نے ہی ہمارے بچوں کی کتابیں چھین لی۔" انصاف علی مزید کہتے ہیں کہ "آخر کیوں بچوں کی پڑھائی کا ایشو سب سے بڑا ایشو نہیں تھا۔ اس جھگڑے سے سینکڑوں بچوں کا مستقبل برباد ہو گیا۔ ان کے والدین کے خواب مر گئے۔"

مظفر نگر فساد کے 7 سال بعد: کتابیں تو وہیں چھوٹ گئی تھیں، اب تو خواہشیں مزدوری کر رہی ہیں!

فاروق، حارث علی اور وسیم بھی فساد کے وقت بچے تھے۔ انھوں نے پڑھنے کے لیے بے مشکل حالات کا بھی سامنا کیا۔ شاملی کرنال کے اسی راستے پر لوئی میں فساد متاثرین کی کالونی میں رہنے والے ان تینوں لڑکوں نے پڑھائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ کچھ سالوں کے بعد حارث اور وسیم تو ٹوٹ گئے، لیکن پڑھائی لکھائی میں ہوشیار فاروق پڑھتا رہا۔ اب فاروق ایک پرائیویٹ بینک میں باوقار عہدے پر ہے۔ فاروق کا کہنا ہے کہ "کسی بھی لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اس سے بڑی لکیر کھینچنی پڑتی ہے۔ اگر کوئی ہمیں برباد کرنا چاہتا ہے تو ہمیں آباد رہنے کے لیے پوری طاقت لگا دینی چاہیے۔ ہم ہمیشہ حالات پر آنسو نہیں بہا سکتے ہیں۔ ہمیں قابلیت کے دم پر کھڑا رہنا ہوگا۔"


مظفر نگر کے بجنور سڑک پر جانسٹھ کے پاس بلوا گاؤں میں آصف سیفی بھی ایسا ہی نوجوان ہے۔ آصف اب ایم اے کر رہا ہے اور ٹیچر بننا چاہتا ہے۔ آصف کہتا ہے کہ "پڑھنے دیجیے، ہمارے سارے رشتہ داروں کے بچے پڑھ رہے ہیں۔ ان میں اور ہم میں یہی فرق ہے کہ بس ہم ایک سال پچھڑ گئے۔ فیل نہیں ہوئے ہیں۔ اب کورونا سے بھی تو پڑھائی کا نقصان ہوا ہے۔ فساد کو بھی آفت مان لیتے ہیں۔ افسوس تو بہت تھا، ساتھیوں کی پڑھائی چھوٹ گئی ہے، لیکن میرے ابو نے میری ہمت نہیں ٹوٹنے دی۔"

کیرانہ کے مہربان علی کیرانوی بتاتے ہیں کہ غالباً فساد کا سب سے بڑا کیمپ یہیں ملکپور میں لگا تھا۔ ہم مہینوں تک وہاں خدمت میں مصروف رہے۔ لیڈر لوگ اور افسر آتے تھے۔ پڑھائی پر بات ہی نہیں ہوتی تھی۔ دوسرے ایشو اثرانداز ہوتے تھے۔ مقدمہ لکھانے، گرفتار، گھر، ہجرت، معاوضہ، تقریر اس سب سے ایک سال کب گزر گیا پتہ ہی نہیں چلا۔ ہزاروں بچوں کی پڑھائی متاثر ہوئے۔ یہ والا نقصان کہیں شمار نہیں کیا گیا، نسلیں تباہ ہو گئیں۔ صرف 5 فیصد بچوں نے اس سال کے بعد آگے پڑھائی کرنے کی ہمت کی۔ لڑکیاں تو بالکل بھی آگے نہیں پڑھ پائیں۔


ایسا نہیں ہے کہ 2013 میں فساد کے فوراً بعد مسلم تنظیموں کو یہ خیال نہیں آیا تھا کہ ان بچوں کی پڑھائی کا کیا ہوگا۔ اس سے جڑی ایک کہانی اور بھی ہے۔ 2013 کے اس سال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سر سید ڈے کا پروگرام رَد کر اس سے اکٹھا ہوا پیسہ فساد متاثرین کے لیے اسکول کھولنے پر خرچ کرنا طے ہوا اور جولا میں ڈیڑھ کروڑ روپے کی امدادی رقم سے 8 اکتوبر 2014 کو اے ایم یو وائس چانسلر رہے ضمیر الدین شاہ نے اس کی بنیاد رکھی۔ اس وقت بتایا گیا تھا کہ اس میں فساد متاثرین کے بچے پڑھیں گے۔

سی بی ایس ای پیٹرن کا 12 بیگھا میں بنایا گیا یہ اسکول اب بھی چل رہا ہے لیکن اس میں امیروں کے بچے پڑھتے ہیں۔ مقامی باشندہ محبوب علی جولا کے مطابق یہ اچھا اسکول ہے۔ گاؤں کے بڑے لوگوں کے بچے یہیں پڑھ رہے ہیں۔ معلومات حاصل کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ فساد متاثرین کے بچے سرکاری اسکول میں جاتے ہیں۔ 49 سال کی زیب النساء کہتی ہیں کہ اب کسی کو کوئی شکایت نہیں، ہم جی لیں گے۔ زیب النساء زور سے ہنستی ہوئی کہتی ہیں "اب یہ جو بیماری آئی ہے تو اس میں تو زمینداروں کے بچے بھی نہیں پڑھ پا رہے، اب اللہ ہی اصلی کارساز ہے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔