حیدر آباد کی 400 سال قدیم مسجد ہوئی شہید، اویسی خاموش، اظہرالدین نے اُٹھائی آواز

اظہر الدین نے مسجد یک خانہ کو تاریخی مسجد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اسے منہدم کرنے کا عمل ناقابل قبول ہے۔ اس طرح کی کارروائی آگے نہیں ہونی چاہیے اور شہید مسجد کی جگہ پر نئی مسجد تعمیر کی جانی چاہیے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

مئی مہینے کے آغاز میں حیدر آباد کی ایک تاریخی مسجد راتوں رات شہید کر دی گئی جس پر قومی میڈیا بالکل خاموش ہے۔ امبر پیٹ واقع کم و بیش 400 سال قدیم ’مسجد یک خانہ‘ کو منہدم کرنے کا کام گریٹر حیدر آباد میونسپل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی) اور حیدر آباد ٹریفک پولس نے مل کر انجام دیا جس کے بعد سب سے زیادہ بحث اس بات کو لے کر جاری ہے کہ مسلم ایشوز پر آواز اٹھانے کا دَم بھرنے والے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) سربراہ اسدالدین اویسی کہاں غائب ہیں۔ملک بھر میں مسلم مسائل پر آواز اٹھانے والے اور خود کو مسلمانوں کا سب سے بڑا ہمدرد بتانے والے اسد الدین اویسی کی مجرمانہ خاموشی کو لے کر مسلمانوں میں بے چینی ہے ۔ مسلمانوں کی بے چینی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسدا لدین اویسی کی پارٹی کی ریاستی حکومت کو حمایت حاصل ہے ۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ ریاست میں اویسی کی حمایت والی حکومت کے دور میں ایسا بڑا اقدام کیسے لیا گیا ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مسجد منہدم کرنے کی خبر پہلے سے ہی اسدالدین اویسی کو دے دی گئی ہوگی اور انھیں خاموش رہنے کے لیے کہا گیا ہوگا، اسی لیے انھوں نے خاموشی اختیار کر لی۔

2 مئی کو شہید ہوئی اس تاریخی مسجد کے بارے میں جب تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی (ٹی پی سی سی) کے ورکنگ صدر محمد اظہر الدین کو خبر ملی تو انھوں نے 13 مئی کو ایک پریس کانفرنس کی اور بھرپور طریقے سے یہ مطالبہ کیا کہ مسجد اپنی جگہ پر پھر سے تعمیر ہو اور حیدر آباد پولس کمشنر کے ساتھ ساتھ جی ایچ ایم سی کمشنر کو بھی ہٹایا جائے۔ اظہر الدین نے ساتھ ہی کہا کہ ’’مسجد یک خانہ ایک تاریخی مسجد تھی اور اسے منہدم کرنے کا عمل ناقابل قبول ہے۔ اس طرح کی کارروائی آگے نہیں ہونی چاہیے اور شہید مسجد کی جگہ پر نئی مسجد تعمیر کی جانی چاہیے۔‘‘ اظہرالدین نے اس انہدامی کارروائی کی مکمل جانچ کا بھی مطالبہ کیا۔


سڑک چوڑی کیے جانے کے نام پر مسجد منہدم کیے جانے پر سوال کھڑا کرتے ہوئے اظہر الدین نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’سڑک کی چوڑائی بڑھانے کے لیے جی ایچ ایم سی کیا چارمینار کو بھی منہدم کر دے گا؟ میں روڈ کی چوڑائی بڑھانے کے خلاف نہیں ہوں اور نہ ہی ڈیولپمنٹ کے خلاف ہوں، لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ تاریخی مسجد کو بچانے کے لیے متبادل طریقوں پر غور کرے۔‘‘ انھوں نے تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے. چندر شیکھر راؤ سے مسجد انہدام معاملہ پر اپنا رد عمل ظاہر کرنے اور واقعہ کو انجام دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔

دراصل رواں ماہ کے شروع میں سڑک چوڑی کرنے کے نام پر مسجد یکخانہ کو منہدم کیا گیا اور اس وقت سے وہاں پر کشیدگی کا ماحول قائم ہے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ مسجد کی عمارت میں مقیم لوگوں کے مالکانہ دعویٰ کو قبول کرتے ہوئے انھیں سرکار کی جانب سے معاوضہ بھی دے دیا گیا۔ لیکن جب راتوں رات اس مسجد کو منہدم کر دیا گیا تو ایک طبقہ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور مسجد کے قدیم و تاریخی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اظہر الدین نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ منہدم کی گئی عمارت وقف بورڈ کی ملکیت تھی اور وہ حقیقت میں ایک تاریخی مسجد تھی۔ اظہر الدین نے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ سرکار نے عمارت پر قبضہ کرنے والے لوگوں کو ڈھائی کروڑ کا معاوضہ دے کر اسے منہدم کر دیا۔


مسجد شہید کیے جانے کے بعد ایک مقامی تنظیم نے حیدر آباد پولس سے احتجاج کرنے کی اجازت مانگی تھی جسے پولس کی جانب سے خارج کر دیا گیا۔ خبریں اس طرح کی بھی موصول ہو رہی ہیں کہ تنازعہ کافی بڑھنے کے بعد جی ایچ ایم سی نے عمارت کی تعمیر از سر نو کرنے کی کوشش کی لیکن بی جے پی رکن اسمبلی راجہ سنگھ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور تعمیری کام آگے نہیں بڑھنے دیا۔ حالات اس قدر کشیدہ ہیں کہ حیدر آباد کے پولس کمشنر انجنی کمار نے امبرپیٹ میں کسی طرح کی بھیڑ لگانے پر روک لگا دی ہے۔

کچھ مقامی میڈیا نے مسجد منہدم ہونے کے بعد پیدا کشیدگی کے تعلق سے خبریں شائع کی ہیں جن کے مطابق اقلیتی طبقہ کے ایک گروپ نے امبرپیٹ کے متنازعہ مقام پر نماز پڑھنے کی کوشش کی لیکن پولس نے انھیں روک دیا۔ لوگوں کی جانب سے نعرہ بازی اور ہنگامہ کے بعد پولس نے کارروائی کرتے ہوئے 77 لوگوں کو حراست میں لے لیا۔ بعد میں ان لوگوں کو متنبہ کر کے چھوڑ دیا گیا۔


مجلس بچاؤ تحریک نامی ایک تنظیم نے اس پورے معاملے کا جائزہ لیا اور پھر اقلیتی طبقہ کے خلاف پولس کی کارروائی کو غلط ٹھہرایا۔ عمارت کو منہدم کیے جانے کے خلاف مجلس بچاؤ تحریک نے ایک عرضی بھی تلنگانہ اسٹیٹ اقلیتی کمیٹی کو بھیجا ہے۔ اس سلسلے میں مجلس بچاؤ تحریک کے ترجمان امجد اللہ خان نے مطالبہ کیا ہے کہ جی ایچ ایم سی کے جو بھی افسر اس انہدامی کارروائی میں ملوث ہیں انھیں فوری اثر سے ہٹایا جانا چاہیے اور گرفتار کیا جانا چاہیے۔ امجداللہ خان کا کہنا ہے کہ ’’کمیشن کو چاہیے کہ وہ جائے وقوع کا دورہ کرے اور ضروری احکام متعلقہ محکموں کو جاری کرے۔ کمیشن حیدر آباد پولس کو بھی یہ حکم دے کہ مسلمانوں کو اس جگہ پر نماز ادا کرنے سے نہ روکے۔ ساتھ ہی جن مسلم نوجوانوں کے خلاف کیس کیا گیا ہے، اسے بھی واپس لیا جانا چاہیے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 May 2019, 7:10 PM