نوٹ بندی کے 3 سال: ملک کو معاشی بدحالی کی طرف دھکیلنے والا فیصلہ، عوام ہنوز بے حال

آج وہ تاریخ ہے جس نے ملک کی ترقی کی رفتار پر نہ صرف بریک لگایا بلکہ معیشت کو ایسی سمت میں موڑ دیا جس کے آگے تاریکی ہی تاریکی ہے۔ آج 8 نومبر ہے، آج نوٹ بندی کی تیسری برسی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

راہل پانڈے

آج ہی کے دن تین سال پہلے مودی حکومت نے ملک کو معاشی بدحالی کے راستے پر دھکیلنے والا فیصلہ کیا تھا۔ آج 8 نومبر ہے، آج ہی کے دن نوٹ بندی کا اعلان ہوا تھا۔ اس نوٹ بندی کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک تین سال بعد بھی مضر اثرات کا سامنا کر رہا ہے اور عوام جدوجہد کر رہے ہیں۔ کسانوں کی فصل کی قیمت نہیں نکل پا رہی ہے، ملازمتوں کو ملازمت بچانا مشکل ہو رہا ہے اور کاروباریوں کو تجارت جاری رکھنا محال ہو رہا ہے۔

2016 نومبر کی 8 تاریخ ملک کی تاریخ کا وہ دن ہے جب ملک نے ایک غلط سمت کی طرف قدم بڑھائے۔ تین سال بعد ہم سب جانتے ہیں کہ آج ہم کہاں پہنچ گئے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی اپنے منھ سے خود بول رہے ہیں کہ ان کے دور کے پہلے 5 سال برباد ہو گئے۔ لیکن اس کے لیے ذمہ دار کوئی اور نہیں، وہ خود ہیں۔ کیش لیس معیشت کے ان کے جنون نے معیشت کو ایسے مقام پر پہنچا دیا کہ سنبھلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔


تین سال پہلے کی اپنی تقریر میں وزیر اعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ نوٹ بندی سے کالا دھن ختم ہو جائے گا، دہشت گردی کا صفایا ہو جائے گا اور نقلی نوٹ باہر نکل کر آ جائیں گے۔ لیکن ہوا کیا، کالے دھن کے تو دَرشن نہیں ہوئے، نقلی نوٹ اب بھی ہمارے آپ کے ہاتھوں میں آ جاتے ہیں اور دہشت گردی کے نام پر ہی تو بی جے پی ووٹ مانگتی رہی ہے۔ کل ملا کر جن وعدوں اور دعووں پر نوٹ بندی کی گئی تھی، وہ اس سب میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

نوٹ بندی کا جب اعلان ہوا تھا کیا امیر، کیا غریب، کیا گاؤں، کیا شہر، سب نے اس کا استقبال کیا۔ مانا گیا کہ اس سے امیر-غریب سب ایک قطار میں آ گئے۔ غریبوں کو لگا کہ اعلیٰ اور متوسط طبقہ کو اوقات دکھا دی گئی۔ لیکن تین سال بعد یہی غریب سب سے زیادہ غمزدہ ہیں۔ لیبر بیورو کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں مزدوروں کی مزدوری میں ہونے والے اضافے میں 3.4 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ زرعی مزدوروں کے لیے شرح مہنگائی کہیں زیادہ ثابت ہو رہی ہے۔


نوٹ بندی سے حالات ایسے آ گئے ہیں کہ بازار سے طلب ہی ختم ہو گئی ہے۔ گاوؤں میں طلب کی حالت اور بھی خراب ہے۔ بچت کی حالت بھی بگڑ چکی ہے۔ 12-2011 کے مقابلے گھریلو بچت میں 30 فیصد سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔

طلب کم ہونے کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ لوگ کم خرچ کر رہے ہیں۔ اور اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ملک کی موجودہ معاشی حالت ملک کی آبادی کے بڑے حصے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہی ہے۔ یو پی اے حکومت کے دور میں تقریباً 14 کروڑ لوگ غریبی لائن سے اوپر آئے تھے اور متوسط طبقہ میں شامل ہوئے تھے۔ لیکن وہ واپس اسی دور میں پہنچنے لگے ہیں۔


نتیجہ یہ ہے کہ صارف کی طلب میں بے حد کمی ہے اور اس کا اثر معیشت پر صاف نظر آ رہا ہے۔ شرح ترقی کی پیمائش کے طریقے حکومت نے بدل دیے اور اسے 7.6 فیصد پر دکھا دیا۔ لیکن تین سال بعد ایس بی آئی کا اندازہ ہی بتاتا ہے کہ یہ 5 فیصد سے نیچے جا چکی ہے۔ یعنی اگر ہمیں آج سے شروع کر 2024 تک 5 کھرب ڈالر کی معیشت بننا ہے تو ہر سال کم از کم 8 فیصد کی رفتار سے ترقی کرنی ہوگی۔

نوٹ بندی سے جو جھٹکا لگا تھا، اس کا اثر صاف نظر آ رہا ہے۔ جی ایس ٹی خزانہ ایک لاکھ کروڑ سے نیچے آ گیا ہے۔ دیوالی بھی بازار میں رونق نہیں لا پایئ۔ صرف ماروتی میں ہی 4.5 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ لیکن آٹو سیکٹر کی باقی کمپنیاں پریشان ہیں۔ اپنے سیاسی نظریات اور انسلاک کے باوجود کاروباری بھی اب بولنے لگے ہیں کہ آنے والا وقت اور بھی مشکلوں بھرا ہے۔


بدحالی صاف نظر آ رہی ہے۔ کور سیکٹر کی شرح ترقی 14 سال کے بدتر سیشن پر 5.2 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ بجلی پروڈکشن تک برے دور میں ہے اور اس کی شرح ترقی ستمبر ماہ میں 3.7 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ یہ دونوں اشارے معیشت کے زمین دوز ہونے کے ثبوت ہیں۔

اس سب کے درمیان بے روزگاری سب سے بڑے مسئلے کی شکل میں ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کام کرنے لائق 10 شہریوں میں سے صرف ایک کو ہی کام مل رہا ہے۔ روز ہزاروں کامگاروں کو کام سے ہٹایا جا رہا ہے۔ 12-2011 سے لے کر 18-2017 کے درمیان تقریباً 90 لاکھ کامگاروں کے لیے روزگار میں کمی آئی ہے۔


سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بے روزگاری کی شرح شہروں میں 8.9 فیصد اور گاؤوں میں 8.3 فیصد پہنچ چکی ہے۔ بے روزگاری کے محاذ پر ملک کا یہ حال 45 سال پہلے تھا۔

ایک خبر کے مطابق وزیر اعظم نے حال ہی میں آئی اے ایس افسروں کی میٹنگ میں کہا ’’آپ نے میرے پانچ سال برباد کر دیے۔ میں آپ کو اگلے پانچ سال برباد نہیں کرنے دوں گا۔‘‘ شاید وزیر اعظم صحیح کہہ رہے ہیں۔ لیکن بس انھیں اتنا کرنا ہے کہ نوٹ بندی جیسے فیصلے لینے سے بچیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Nov 2019, 10:11 AM