25 سال قبل ایئر انڈیا مسافر طیارہ کے کھانے میں ملا تھا ’بال‘، اب ایئرلائنس کو ادا کرنا ہوگا 35 ہزار روپے جرمانہ

26 جولائی 2002 کو پی سندراپریپورنم ایئر انڈیا کی فلائٹ آئی سی-574 سے سفر کر رہے تھے۔ فلائٹ میں جب انھیں کھانا دیا گیا تو وہ پیک تھا۔ پیک کھولنے پر انھیں کھانے میں بال کے ریشے دکھائی دیے۔

<div class="paragraphs"><p>ایئر انڈیا کی پرواز / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

23 سالوں تک چلی قانونی جنگ کے بعد آخر کار پی. سندراپریپورنم کو انصاف مل ہی گیا۔ مدراس ہائی کورٹ نے ’ایئر انڈیا‘ کو حکم دیا ہے کہ وہ ایئر انڈیا مسافر طیارہ میں سفر کرنے والے سندراپریپورنم کو 35 ہزار روپے معاوضہ کے طور پر دے۔ معاملہ 2002 کا ہے، جب کولمبو سے چنئی جانے والی ایئر انڈیا کی فلائٹ میں سندراپرپورنم کو کھانے میں بال نکل گیا تھا۔ اس وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔

26 جولائی 2002 کو پی سندراپریپورنم ایئر انڈیا کی فلائٹ آئی سی-574 سے سفر کر رہے تھے۔ فلائٹ میں جب انھیں کھانا دیا گیا تو وہ پیک تھا۔ پیک کھولنے پر انھیں کھانے میں بال کے ریشے دکھائی دیے۔ یہ دیکھ کر انھیں بہت برا محسوس ہوا اور وہ بیمار ہو گئے۔ انھوں نے فلائٹ میں شکایت کرنی چاہی، لیکن کوئی شکایت باکس نہیں تھا، اور اسٹاف نے بھی ان کی باتوں پر توجہ نہیں دی۔


چنئی پہنچنے کے بعد سندراپریپورنم نے ایئر انڈیا کے ڈپٹی جنرل منیجر کو تحریری شکایت دی۔ ایئر انڈیا نے جوابی خط بھیج کر افسوس ظاہر کیا اور جانچ کا بھروسہ دلایا۔ اس کے بعد سندراپریپورنم نے وکیل کے ذریعہ نوٹس بھیجا اور الٹی و دست کے ساتھ ساتھ پیٹ درد کا حوالہ دیتے ہوئے 11 لاکھ روپے معاوضہ کا مطالبہ کیا۔ ایئر انڈیا نے جواب میں پھر معافی مانگی، لیکن کہا کہ یہ ایئرلائن کی لاپروائی نہیں بلکہ کھانا بنانے والے ہوٹل کی غلطی ہو سکتی ہے۔

ایئر انڈیا نے عدالت میں دلیل دی کہ کھانا چنئی کے امبیسڈر پلوا ہوٹل سے منگوایا گیا تھا، اس لیے ذمہ داری ہوٹل کی ہے۔ ساتھ ہی کہا کہ جب مسافر نے پیک کھولا تب کسی دوسرے مسافر کا بال گر گیا ہوگا۔ مدراس ہائی کورٹ نے کہا کہ ایئر انڈیا خود اپنی باتوں میں الجھی ہوئی ہے۔ ایک طرف کہتی ہے کہ شکایت نہیں ہوئی، دوسری طرف مانتی ہے کہ شکایت کی گئی تھی۔ عدالت نے کہا کہ ایئر انڈیا نے خود اعتراف کیا ہے کہ کھانے میں بال ملا تھا، اس لیے یہ واضح لاپروائی کا معاملہ ہے۔ عدالت نے قانونی اصول ’ریس اپسا لوکوئٹور‘ یعنی ’غلطی خود بہ خود ثابت ہوتی ہے‘ نافذ کرتے ہوئے کہا کہ مسافر کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ غلطی کیسے ہوئی۔ ایئرلائن ہی یہ ثابت کرے کہ اس نے مکمل احتیاط کیا تھا۔ حالانکہ عدالت نے مانا کہ مسافر نے کوئی میڈیکل ثبوت نہیں دیا، جس سے یہ ثابت ہو کہ انھیں سنگین نقصان ہوا۔ اس لیے ٹرائل کورٹ کے ذریعہ دیے گئے ایک لاکھ کے معاوضہ کو گھٹا کر 35 ہزار روپے کر دیا گیا۔


عدالت نے اس کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ ٹکٹ میں کھانا شامل ہے، اس لیے بھلے ہی کھانا کسی ہوٹل سے آیا ہو، ذمہ داری ایئر انڈیا کی ہی ہے۔ آخر میں عدالت نے حکم دیا کہ ایئر انڈیا 4 ہفتوں کے اندر مسافر کو 35 ہزار روپے ادا کرے۔ اس فیصلے نے صاف کر دیا کہ ایئرلائن کی ذمہ داری صرف محفوظ پرواز تک محدود نہیں، بلکہ کھانے پینے کا معیار اور شفافیت بنائے رکھنے کی بھی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔