حالات بگڑے تو ذمہ دار جمعیۃ علماء اور مسلم پرسنل لاء بورڈ: سلمان ندوی

مولانا سلمان ندوی کا کہنا ہے کہ بابری مسجد کے قضیہ میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی 91-1990کی کوششوں کو فریقین کے شرپسندوں نے ناکام بنا دیا تھا جس کے بعد مسجد شہید کر دی گئی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بابری مسجد اراضی کے سلسلے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ سے الگ موقف رکھنے والے مولانا سلمان حسینی ندوی نے دو صفحات پر مبنی تحریری اعلان پیش کیا ہے جس میں انھوں نے جمعیۃ العلماء اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے متعلق اپنا نظریہ بیان کیا ہے اور کئی باتیں لوگوں کے سامنے رکھی ہیں۔ اس تحریری اعلان میں انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک کے حالات اگر بگڑتے ہیں تو اس کی مکمل ذمہ داری جمعیۃ علماء اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کاندھوں پر ہوگی۔ ’قومی آواز‘ کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے مکمل تحریری اعلان۔

ایک نیا اعلان

الحمدللہ پورے ملک کو معلوم ہو گیا ہے کہ بابری مسجد کے بارے میں میرا موقف کیا ہے، اور ملک کے لیے میرا مشن کیا ہے، میں تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے پورا تعاون کرتے ہوئے میری بات لوگوں تک پہنچا دی۔

میری بات یہ ہے کہ ملک میں ہندو، مسلم، بودھ، سکھ، عیسائی کے درمیان بھائی چارہ ہونا چاہیے، مذاہب کے لوگوں اور مختلف برادریوں کو یہ بات ماننا چاہیے کہ سب ایک رب کے بندے اور ایک باپ کے بیٹے ہیں، انھیں اپنے مسائل گھریلو طرز پر گھر کے اندر ہی طے کر لینا چاہیے، بھائیوں کا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے درمیان دوری، نفرت اور عداوت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ آپس میں مصالحت نہیں کر سکتے، اس ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں یہ کھائی اور نفرت کی دیوار انگریزوں نے پیدا کی تھی، جدوجہد آزادی نے اس پر قابو پایا تھا، لیکن تحریک آزادی کا اختتام جس تقسیم پر ہوا، اس نے انگریزوں کی شیطنت اور عیاری کو ملک کے باشندوں پر غالب کر دیا۔

آزادی کے بعد سے آج تک اس ملک میں انگریزوں کے ایجنٹ اور نفرت کے پرچارک فسادات کراتے رہے اور خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہے جس میں سب سے بڑا ہاتھ کانگریس کا ہے۔

بابری مسجد کے قضیہ میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی 91-1990 کی کوششوں کو فریقین کے شرپسندوں نے ناکام بنا دیا، جس کے بعد مسجد شہید کر دی گئی اور پورے ملک میں بے دردی سے خون مسلم بہایا گیا۔ اب پھر حالات گرما گرم ہیں۔ ہم لوگوں نے پانچ چھ مہینوں سے ایک مصالحتی فارمولہ پر اپنی کوششیں صرف کیں، جو جاری رہیں گی۔ عدالت سے باہر ہی مسائل کو حل ہونا چاہیے، یہی شریفانہ طریقہ ہے اور یہی داعیانہ طرز و اسلوب ہے۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ العلماء کی یہ رائے ہے کہ ہم عدالت کے فیصلہ کا ہی انتظار کریں گے، میرا ان سے اختلاف ہے، میں نے حیدر آباد میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ میں اپنے اختلاف کا تذکرہ کیا، جس پر جو رد عمل ہوا سب کو معلوم ہے۔

مجھ سے کہا گیا کہ میں اپنا موقف تبدیل کر لوں، میں نے صاف طور پر اس سے انکار کیا، مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم کے بیانات سے معلوم ہوا کہ ان کو بیچ میں ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ وہ مجھے رجوع پر آمادہ کریں تاکہ میں پرسنل لاء بورڈ میں واپس آ سکوں۔

میں مولانا ارشد مدنی سے عرض کرتا ہوں کہ آپ جانتے ہیں کہ جب آپ کے بھتیجے نے آپ سے اختلاف کیا تھا تو میں نے آپ کے حق میں اپنے موقف کا اعلان کیا تھا، اس لیے کہ آپ مولانا محمود مدنی کے چچا ہیں، باپ کی جگہ پر ہیں، علم و تقویٰ میں فضیلت رکھتے ہیں، جس کے بعد آپ نے اپنے جلسوں میں مجھے بلانا شروع کیا، آپ کی جرأت اور صداقت اور سرگرمی کی بنیاد پر میرا یہ مطالبہ تھا کہ آپ امیرالہند قرار دیے جائیں۔

لیکن جب سعودی حکومت کے مظالم اور جرائم کی کھلم کھلا کہانی شروع ہوئی تو میں نے آپ کو سوال نامہ بھیجا کہ اپنے موقف کی وضاحت کریں۔ اس حکومت کی نسبت سے علیحدگی اختیار کریں، جس نے ایک عرصہ سے مسالک، صوفیا، اشاعرہ و ماتریدیہ، اور دینی جماعتوں کو نشانہ بنایا، مولانا قاسم نانوتوی کو اپنی جامعات کے تخصص کے بعض مقالات میں قادیانیت کا بانی قرار دیا، دیوبندیت کو قادیانیت کی طرح ایک فرقہ قرار دیا، اور اس پر کتابیں شائع کرائیں، دوسری طرف ہر ملک کی اسلامی تحریکات کا قلع وقمع کیا، مصر میں مرسی صاحب کی جمہوری اسلامی حکومت کو ختم کرانے کے لیے وزیر دفاع کو اسرائیل کے توسط سے تیار کیا، اور فوجی انقلاب برپا کر کے ہزاروں بے گناہوں کا سڑکوں پر قتل عام کرایا، مجھے تعجب تھا اور ہے کہ مولانا کی جرأت حق کہاں گئی، اور اب سعودی عرب لادینی (سیکولر) ملک بنایا جا رہا ہے، عورتوں کا پردہ ختم کیا جا رہا ہے، کھلے عام ڈانس کی محفلیں سجائی جا رہی ہیں، سنیما گھر کھولے جا رہے ہیں، نامی گرامی علماء کو گرفتار کیا جا رہا ہے، تو آخر کیا بات ہے کہ جو علماء طلاق کے لیے پریشان ہیں، کہیں یہ حق ان سے چھین نہ لیا جائے، وہ سعودی حکومت کی ظالمانہ کارروائیوں پر کیوں نہیں بولتے؟؟؟!!!۔

میرے ان سوالات کے بعد جمعیۃ العلماء کے اسٹیج پر مجھے بلانا بند کر دیا گیا، اس سے پہلے جنرل سکریٹری کی طرف سے جمعیت کی بعض ذمہ داریاں قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی، لیکن میں نے اس خط کا جواب بھی نہیں دیا تھا، اور نہ مجھے جمعیۃ العلماء کے کسی عہدہ، اور نہ اس کے اسٹیج کی ضرورت ہے۔

اب بڑی شفقت سے مولانا فرما رہے ہیں اور بہت سے محبین کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنا موقف تبدیل کر لیں، تو آپ کو پرسنل لاء بورڈ میں لے لیا جائے گا، میں ان پر ہنستا ہوں اور روتا ہوں، مجھے تعجب ہوتا ہے کہ کیا بڑے اصحاب علم بھی بات نہیں سمجھ پائے۔

میں نے اپنے موقف کی وجہ سے مسلم پرسنل لاء بورڈ سے علیحدگی اختیار کی ہے، جو حضرات بغلیں بجا رہے ہیں کہ ہم نے ان کو نکال دیا، وہ خوش ہو لیں، مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔

1. مجھے ان سے ہر قضیہ میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے اور ملت کی بڑی رقومات وکیلوں پر خرچ کرنے کی پالیسی سے پرانا اختلاف ہے۔

2. مجھے تین طلاقوں کے قضیہ میں پہلے دن سے ہی ان سے اختلاف ہے۔

3. مجھے بابری مسجد کے مسئلہ میں ان کی پالیسی سے اختلاف ہے۔

4. مجھے ان کے موجودہ انتظامیہ سے اختلاف ہے۔

اس لیے جو لوگ بابری مسجد کے مسئلہ میں میرے خلاف جھوٹے پروپیگنڈہ کا استعمال کر رہے ہیں کہ مولانا سلمان مسجد کی زمین مندر کو دے رہے ہیں، کورٹ کے فیصلہ سے پہلے یہ بیچ میں کیوں کود پڑے، یہ روی شنکر سے کیوں ملے، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے حق میں آنے والا ہے، ... بڑے چھوٹے، عوام و خواص کی ایک تعداد اس کا شور مچائے ہوئے ہے۔

اس لیے میں اب یہ اعلان کر رہا ہوں کہ ہمارا موقف وہی ہے کہ ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارہ ہونا چاہیے، اور اس کے لیے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے گا، لیکن 14 مارچ کا ہم انتظار کرتے ہیں تاکہ عدالت علیا اپنی کارروائی شروع کر دے، اور میری چیف جسٹس سے عاجزانہ درخواست ہے کہ براہ کرم یومیہ سماعت کے ساتھ مارچ کے اندر ہی اپنا فیصلہ صادر کر دیں۔ 25 سال گزر گئے، کتنے ذمہ دار دنیا سے رخصت ہو گئے، اور کتنے چراغ سحری ہیں، براہ کرم عدالت علیا جلد از جلد اپنا فیصلہ صادر کر دے، کہیں ایسا نہ ہو کہ فیصلہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ العلماء کے حق میں آنے والا ہو، اور میں اس میں رکاوٹ بن جاؤں، میں تو چاہتا ہی ہوں کہ مسجد بنے، کیسا اچھا ہو کہ ان بزرگوں کی تمناؤں کے مطابق بن جائے، اس دوران اور اس کے بعد ہماری متحدہ کوششیں امن و بھائی چارہ کی جاری رہیں گی، عدالت کے فیصلہ کے بعد بھی جاری رہیں گی (فانتظروا انا معکم منتظرون)۔

میں مسلمانوں سے کہتا ہوں اگر خدانخواستہ حالات بگڑتے ہیں تو اب اس کی مکمل ذمہ داری جمعیۃ العلماء اور پرسنل لاء بورڈ کے کاندھوں پر ہوگی، ہم ان کی رائے اور فیصلہ سے عنداللہ اور عندالناس بری ہیں۔ ہم نے دعوت توحید و انسانیت، اتحاد و اتفاق و اخوت و محبت، شریعت کی وسعت اور مسالک میں گنجائش کی حجت ایک سو پچیس کروڑ انسانوں کے سامنے پوری کر دی۔ اللہم فاشھد- اللہم فاشھد۔

سید سلمان حسینی ندوی

15 فروری 2018ء

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Feb 2018, 2:47 PM