ممبئی اور اَطراف کے اسمبلی حلقوں سے 14 اقلیتی امیدواروں کی کامیابی متوقع

ایک غیرجانبدار تنظیم نے ممبئی سمیت تقریباً 14 اسمبلی انتخابی حلقوں کا جائزہ لیا اور اس کے نتیجے میں انکشاف ہوا کہ ان حلقوں سے اقلیتی امیدوار باآسانی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

ممبئی سمیت مہاراشٹر میں متعدد ایسے اسمبلی حلقے ہیں، جن کے رائے دہندگان اگر بہتر اور منصوبہ انداز میں حق رائے دہی کا استعمال کریں تو کسی بھی پارٹی کے اقلیتی امیدوار اسمبلی کے ایوان میں آسانی سے داخل ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک غیرجانبدار تنظیم نے ممبئی سمیت تقریباً 14 اسمبلی انتخابی حلقوں کا جائزہ لیا اور اس کے نتیجے میں انکشاف ہوا کہ ان حلقوں سے اقلیتی امیدوار باآسانی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

مذکورہ انتخابی سروے کے روح رواں اور ایک کالج میں لیکچرار ریحان انصاری کے مطابق ممبئی کے متعدد حلقوں کے ساتھ ساتھ بھیونڈی بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ جوکہ ممبئی کا ایک نزدیکی اسمبلی حلقہ ہے اور اسمبلی میں مسلم نمائندگی کے لیے مشہور ہے۔ ان اسمبلی حلقوں میں تقریباً 2.5 لاکھ اہل ووٹرز ہیں، لیکن چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ آبادی کا نصف حصہ ہی الیکشن کے روز ووٹنگ کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر آتا ہے۔ ممبئی کے شمال مغربی اسمبلی حلقہ ورسوا میں جو کہ ایک متمول علاقہ ہے ووٹنگ محض 39 فیصد ہوتی ہے اور ممبئی شہر میں زیادہ سے زیادہ 55 فیصد ووٹنگ بائیکہ اسمبلی حلقہ میں ریکارڈ ہوئی تھی۔ ممبئی میں متعدد حلقوں میں سیکولر امیدواروں کو بی جے پی سے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور فرق کافی کم رہا ہے۔ دراصل دیگر سیکولر پارٹیوں کے اتنے امیدوارمیدان میں اترگئے کہ اہم سیکولر پارٹیوں کے امیدواروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔


مہاراشٹر میں انڈین نیشنل کانگریس پارٹی اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) اتحاد پر مشتمل بڑی سیکولر پارٹیاں ہیں جوکہ اگر جنوبی ہند کی ایم آئی ایم اور شمالی ہند کی سماجوادی پارٹی (ایس پی) جیسی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ انتخابی سمجھوتہ کرلیں تو یہ فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ فی الحال ممبئی میں سات اسمبلی کامیاب ایم ایل اے کا تعلق سیکولر پارٹیوں سے ہے اور اگر منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے اقدام کیے جائیں تو موجودہ 7 جیتنے والوں کی تعداد 14 سے تجاوز ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے کسی بھی سیکولر پارٹی کے امیدوار کا انتخاب کیا جائے اور یکطرفہ ووٹ دیا جائے تو اس کی کامیابی یقینی ہے۔

ریحان انصاری کا خیال ہے کہ اگر موجودہ اوسطاً 50 فیصد پولنگ کا فیصد 5 سے 10 بڑھایا جائے تو سیکولرامیدوار کو آسانی سے کامیابی مل سکتی ہے۔ بلکہ ایسے حلقہ جیت کے ضامن ہوں گے۔ اس کے لیے عوام کو مناسب انداز میں ووٹ دینے کے لیے بیداری پیدا کی جائے تاکہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم روکی جاسکے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ چھوٹی سیکولر جماعتیں کانگریس کے امیدواروں کو نقصان پہنچاتیں ہیں اور فی الحال پانچ حلقوں میں یہی ہونے والا ہے، ان حلقوں میں ایم آئی ایم کے امیدوار میدان میں ہیں-


ایم آئی ایم نے 2014 میں یہاں سے انتخاب نہیں لڑا تھا۔ ایسے میں ایک دوسرے کی حمایت کو یقینی بنانا ہے۔فی الحال جنوبی ممبئی میں ممبا دیوی حلقہ سے کانگریس کے امین پٹیل، بائیکلہ سے ایڈوکیٹ وارث پٹھان، دھاراوی حلقہ سے کانگریس کی ورشا گائیکواڑ، چاندولی حلقہ سے سابق وزیر اور اسمبلی کے ڈپٹی لیڈر عارف نسیم خان اور مالونی سے کانگریس کے ہی اسلم اور گوونڈی سے سماج وادی پارٹی کے ابوعاصم اعظمی کامیاب ہوئے تھے اور اب انہیں سخت آزمائش کا سامنا ہے۔ کیونکہ دیگر چھوٹی سیکولر پارٹیوں نے بھی ہر ایک حلقے میں امیدوار میدان میں اتار دیئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Oct 2019, 7:00 PM