25 سال بعد دہشت گردی کے الزامات سے 11 مسلم نوجوان بری

فیصلہ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ملک کا سیکولر اور دانشور طبقہ اس ناانصافی پر چپ کیوں ہے؟، جب تک قصووار افسران کو سزا نہیں دی جاتی یہ انصاف ادھورا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: فروری دہشت گردانہ معاملات میں بے جا گرفتار 750 مسلم نوجوانوں کو قانونی امداد فراہم کرنے کے لیئے مشہور ہندوستانی مسلمانوں کی قدیم مؤقر تنظیم جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی) کی کوششوں سے آج 25 سالوں کے طویل انتظار کے بعد 11 مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزامات سے ناسک کی خصوصی ٹاڈا عدالت نے بری کر دیا۔

عدالت نے ملزمین کو نا کافی ثبوت اور تحقیقات کے دوران ٹاڈا قانون کے رہنمایانہ اصولوں کی دھجیاں اڑانے کو بنیاد بنا کر ملزمین کو باعزت بری کردیا۔ بدھ کے روز جیسے ہی خصوصی ٹاڈا جج ایس کھاتی نے مقدمہ کا فیصلہ سنایا ملزمین نے راحت کی سانسیں لیں اور خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ گذشتہ روز ہی فیصلہ آنا تھا لیکن دن بھر فیصلہ لکھنے کا عمل چلتا رہا اور شام کے پانچ بجنے کے بعد فیصلہ ظاہر ہونا شروع ہوا۔

واضح رہے کہ 28 مئی 1994 کو تحقیقاتی دستہ نے مہاراشٹر اور ملک کے دیگر صوبوں کے مختلف شہروں سے اعلی تعلیم یافتہ ۱۱ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات 153 (A) 120، (B) اور ٹاڈا قانون کی دفعات 3 (3) (4)(5)، 4 (1) (4) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا اور ان پرالزام عائد کیا تھا کہ وہ بابری مسجد کی شہادت کا بدلہ لینا چاہتے تھے، جس کے لیئے انہوں نے کشمیر جاکر دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کی ٹریننگ حاصل کی تھی۔

تحقیقاتی دستہ نے ملزمین جمیل احمد عبداللہ خان، محمد یونس محمد اسحاق، فاروق خان نذیر خان، یوسف خان گلاب خان، ایوب خان اسماعیل خان، وسیم الدین شمش الدین، شیخ شفیع شیخ عزیز، اشفاق سید مرتضی میر، ممتاز سید مرتضی میر، محمد ہارون محمد بفاتی اور مولانا عبدالقدیر حبیبی کو بھساول الجہاد نامی تنظیم کا رکن بتایا تھا اور ان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ناسک اور بھساول میں مسلمانوں کو جہاد کرنے پر اکسا رہے تھے اور انہوں نے سرکاری عمارتوں سمیت دیگر اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے اس فیصلہ پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح 25 برس کے بعد انصاف ملا ہے وہ اس انگریزی کہاوت کو سچ کردکھاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس پر نہ تو ملک کا میڈیا کچھ کہہ رہا ہے اور نہ ہی وہ دانشور طبقہ ہی کوئی تبصرہ کرتا ہے جو سیکولرزم کی قسمیں کھاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پچیس برس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک شخص کے زندگی کے انتہائی قیمتی ماہ و سال تباہ کردئے بلا شبہ انصا ف ملا اور ایجنسیوں کا جھوٹ ایک بار پھر طشت از بام ہو گیا لیکن کیا اس انصا ف سے لوگوں کی زندگی کے تباہ ہوئے ماہ و سال واپس لوٹائے جاسکتے ہیں؟

مولانا مدنی نے کہا کہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے آج کچھ لوگ باعزت بری ہوئے ہیں کل مزید کچھ لوگوں کو ایجنسیاں جھوٹے الزام میں سلاخوں کے پیچھے پہونچادیں گی اور یہ مذموم سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا انہوں نے سوال کیا کہ اس طرح کب تک بے گناہوں کی زندگیاں سے کھلواڑ ہوتا رہے گا ؟ انہوں نے یہ بھی کہا جب تک پولیس اور ایجنسیوں کی جواب دہی طے نہیں ہوگی اور جب تک بے گناہوں کی زندگیاں تباہ کرنے والے افسران کو سزا نہیں دی جاتی اسی طرح لوگ گرفتار اور رہا ہوتے رہیں گے اور اسی طرح ایجنسیاں مسلم نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کرتے رہیں گی ۔ مولانا مدنی نے مزید کہا کہ سیاسی پارٹیوں سے تو اس سلسلے میں انصاف کی توقع ہی فضول ہے مگر بنیادی سوال تو یہ ہے کہ ملک کا سیکولر اور دانشور طبقہ اس ناانصافی پر کیوں چپ ہے ؟ انہوں نے آخیر میں کہا کہ جب تک قصووار افسران کو سزا نہیں دی جاتی یہ انصاف ادھورا ہے۔

خصوصی ٹاڈا جج کی جانب سے ۱۱؍ مسلم ملزمین کو باعزت بری کیئے جانے پر جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ حالانکہ حصول انصاف میں تاخیر ہوئی لیکن مسلمانوں کے ماتھوں پر سے دہشت گردی کا کلنک صاف ہونا اہم بات ہے ۔انہوں نے دفاعی وکلاء خصوصاً ایڈوکیٹ شریف شیخ اور ان کے رفقاء متین شیخ، انصار تنبولی، رازق شیخ، شاہد ندیم، محمد ارشد، ہیتالی سیٹھ و دیگر کومبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ آسان نہیں تھا معاملے کی ہر سماعت پر ممبئی سے ناسک جاکر ملزمین کا دفاع کرنا لیکن انہوں نے تمام نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی خدمات پیش کیں جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہیں ۔گلزار اعظمی نے کہا کہ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر ۱۱؍ مسلم ملزمین کو قانونی امداد فراہم کی اور جب ہم نے تین سال قبل ان کا مقدمہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور دفاعی وکلاء نے چارج شیٹ کا مطالعہ کیا تب یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ ملزمین کو جھوٹے مقدمہ میں پھنسایاگیا ہے اور انہیں ۲۵؍ سالوں تک عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا گیا۔گلزار اعظمی نے کہاکہ مقدمہ کے جعلی ہونے کا ثبوت اس بات سے بھی واضح ہوتا ہیکہ عدالت میں آدھے سے زیادہ سرکاری گواہان اپنے بیانات سے ایک جانب جہاں منحرف ہوگئے وہیں روویو کمیٹی نے ۲۰؍ سال قبل ہی ملزمین کو مقدمہ سے ڈسچارج کرنے کی سفارشات حکومت کو پیش کیں تھیں لیکن حکومت کی سفارشات کو نچلی عدالت نے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا جس کا خمیازہ ملزمین کو بھگتنا پڑا اور انہیں عدالت میں یہ ثابت کرنا پڑا کہ ان پر جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Feb 2019, 12:10 AM