کشمیر میں غیر یقینی صورتحال کا 107 واں دن، صحافی، طلبہ اور تاجر ہنوز متاثر

وادی میں جہاں ایک طرف معمولات زندگی بحالی کی طرف گامزن ہیں وہیں انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات پر جاری پابندی کی وجہ سے صحافیوں، طلبا اور تاجروں کا کام کاج بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

سری نگر: وادی کشمیر میں 107 دنوں سے جاری غیر یقینی صورتحال اور غیر اعلانیہ ہڑتال کے بعد اگرچہ معمولات زندگی بحالی کی طرف بڑھنے کی رفتار تیز گام ہے لیکن انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات پر مسلسل پابندی کے باعث مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ لوگوں بالخصوص صحافیوں، طلبا اور تجار کا کام کاج بری طرح متاثر ہو کر رہ گیا ہے۔

بتادیں کہ مرکزی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کے جموں کشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے فیصلے کے خلاف وادی میں غیر یقینی صورتحال سایہ فگن ہوئی اور غیر اعلانیہ ہڑتال کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا تھا۔


موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی میں منگل کے روز معمولات بحالی کی طرف تیزی سے گامزن ہوتے ہوئے دیکھا گیا، بازاروں میں دکانیں دن کے بیشتر وقت تک کھلی رہیں اور سڑکوں پر پرائیویٹ گاڑیوں کی بھر پور نقل وحمل کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ بشمول بڑی بسوں کی آمد رفت میں بھی روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔

کشمیر میں غیر یقینی صورتحال کا 107 واں دن، صحافی، طلبہ اور تاجر ہنوز متاثر

شہر سری نگر کے جملہ علاقوں کے علاوہ دیگر ضلع صدر مقامات وقصبہ جات میں بھی معمولات زندگی بحالی کی طرف گامزن ہو رہے ہیں تاہم جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ اور ملحقہ علاقوں میں گزشتہ دنوں مبینہ طور پر پوسٹر چسپاں ہونے کے بعد ہڑتال کی وجہ سے زندگی درہم وبرہم رہنے کی اطلاعات ہیں۔ ادھر وادی میں جہاں ایک طرف معمولات زندگی بحالی کی طرف تیزی سے گامزن ہیں وہیں انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات پر جاری پابندی کی وجہ سے صحافیوں، طلبا اور تاجروں کا کام کاج بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

صحافیوں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ خدمات کی مسلسل معطلی سے ان کا پیشہ ورانہ کام کاج از حد متاثر ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'معمولات کافی حد تک بحال ہونے کے باوصف تمام طرح کے انٹرنیٹ خدمات پر مسلسل پابندی کی وجہ سے ہمارا کام کاج بے حد متاثر ہورہا ہے، گو کہ انتظامیہ نے سرکاری میڈیا سینٹر قائم کیا ہے لیکن وہ محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے ایک چھوٹے کمرے میں قائم ہے وہاں انٹرنیٹ اور بجلی بار بار معطل رہتی ہے اور یہ سینٹر یہاں کے صحافیوں کے لئے کام کرنے کا واحد ذریعہ ہے، وہاں کام کرنے کے لئے قطار میں کھڑا ہوکر انتظار کرنا پڑتا ہے اور باری آنے پر تعجیل سے کام کرنا پڑتا ہے'۔


صحافیوں نے کہا کہ مذکورہ میڈیا سینٹر میں اچھی طرح زیادہ سے زیادہ نصف درجن صحافی کام کرسکتے ہیں لیکن جب وہاں درجنوں صحافی جمع ہوجاتے ہیں تو کام مکمل طور پر نہیں ہوپاتا ہے۔ طلبا کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے انٹرنیٹ سہولیات کی فراہمی کے لئے تو این آئی سی سینٹروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے لیکن ایس ایم ایس سروس پر جاری پابندی سے ان سینٹروں کے قیام کا مقصد ہی فوت ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ داخلہ فارم، امتحانی فارم یا اسکالرشپ فارم جمع کرنے کے بعد موبائیل نمبر پر ایس ایم ایس کے ذریعے او پی ٹی نمبر آتا ہے لیکن یہاں جب ایم ایس ایس سروس ہی بند ہے تو یہ نمبر ہی نہیں آتا ہے نتیجتاً ہم فارم جمع کرنے سے قاصر ہیں۔

دریں اثنا انتظامیہ نے وادی کے محبوس سیاسی لیڈروں کو سردی کے پیش نظر دوسری جگہوں پر منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے چند روز قبل پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو چشمہ شاہی سے مولانا آزاد روڑ کے متصل ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں منتقل کیا گیا جبکہ اتوار کے روز 34 لیڈروں کو سنتور ہوٹل سے ایم ایل اے ہوسٹل منتقل کیا گیا تاہم نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ فی الوقت ہری نواس میں ہی بند ہیں۔ قبل ازیں چند سیاسی لیڈروں کی رہائی بھی عمل میں لائی گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Nov 2019, 7:11 PM