کیا آئین بدلنے والوں کو یوم جمہوریہ منانے میں شرم نہیں آئے گی؟... تقدیس نقوی

خلاف معمول میر صاحب کے ہاتھوں میں ان کی پارٹی کا جھنڈا نہ دیکھ کر ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا بات ہے اتنے اہم موقع کی تیاری کے لئے آج آپ کے ہاتھوں میں آپ کی اپنی پارٹی کا جھنڈا نظر نہیں آرہا؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تقدیس نقوی

( یوم جمہوریہ پر خاص مضمون)

آج میر صاحب بڑے طمطراق کے ساتھ ہمارے پاس آئے اور پیشگی یوم جمہوریہ کی مبارکباد دینے لگے۔ خوشی سے ان کی بانچھیں کانوں تک کھلی ہوئی تھیں، کیونکہ عمر کے تقاضوں کے تحت ان کے دانت بھی ان کی اکلوتی بیوی کی طرح ان کو چھوڑ کر جاچکے تھے اس لئے ان کے منہ میں خوشی سمانے کی کافی گنجائش نکل آئی تھی۔ آج وہ بہت تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ ہاتھوں میں مختلف سائز کے چھوٹے بڑے ترنگے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔ ساتھ ہی مختلف رنگوں اور اسٹائیل میں تیارکردہ کچھ بینرس بھی لے کر آئے تھے جن پر قومی جوش دلانے والے نعرے لکھے ہوئے تھے مثلاً ’یوم جمہوریہ زندہ باد، ہمارا آئین ہماری شان اور ہمارا ائین امر رہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ خلاف معمول ان کے ہاتھوں میں ان کی پارٹی کا جھنڈا نہ دیکھ کر ہم نے سب سے پہلا سوال ان سے یہی کیا: ’’میر صاحب کیا بات ہے اتنے اہم موقع کی تیاری کے لئے آج آپ کے ہاتھوں میں آپ کی اپنی پارٹی کا جھنڈا نظر نہیں آرہا؟‘‘

’’بھئی یوں تو ہمارا پورا لباس ہی ہماری پارٹی کا جھنڈا نظر آتا ہے مگر یوم جمہوریہ کے خاص موقعہ کے لئے اسپیشل 'میڈ ان انڈیا' جھنڈے چین سے منگوائے گئے ہیں اور ایک دو دن میں آجائیں گے" میر صاحب کچھ جھینپے جھینپے سے اپنی پوزیشن صاف کر رہے تھے۔


میر صاحب کو اس قدر شادمان دیکھ کر ہم نے ان سے پوچھ ہی لیا آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ اس برس وہ یوم جمہوریہ کی خوشی کچھ زیادہ ہی جوش وخروش سے منانے جا رہے ہیں جبکہ ہونا اس کے برعکس چاہیے تھا؟

’’برعکس سے کیا مراد ہے آپ کی؟‘‘ میر صاحب تیوری چڑھا کر بولے۔

’’جناب والا کیا آپ کو آئین ہند کے اس یوم اجراء کی یاد مناتے ہوئے شرم نہیں آئے گی جس کے مقدمہ آئین (preamble) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ نئے نئے قانون بنوا رہے ہیں۔ آئین ہند کے ساتھ بھلا یہ کون سی وفاداری ہے کہ ایک جانب آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں تو دوسری طرف آئین زندہ باد کہ نعرے لگائے جانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں‘‘۔ ہم نے بھی میر صاحب سے ان کی آئین ہند سے وفاداری کی حقیقت کا پردہ فاش کرتے ہوئے سیدھا سوال کر ڈالا۔


’’بھائی صاحب جب قانون سازوں نے مل جل کر بڑی اکثریت کے ساتھ یہ تبدیلی کی ہے تو اب اس کے بعد کسی مزید چوں چرا کی کہاں گنجائش رہ جاتی ہے‘‘ میر صاحب نے اپنی پارٹی کی پارلیمنٹ میں موجودہ اکثریت کا پرانا راگ الاپتے ہوئے رعب ڈالنے کی کوشش کی۔

’’تو پھرآپ لوگ اس حقیقت کا جنتا کے سامنے کھل کر اقرار کیوں نہیں کرتے کہ آپ نے آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو بدلنے کا اقدام کیا ہے۔ آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مسخ کرنے کے بعد بھی اسی آئین کی قسمیں کھاتے ہوئے آپ کے یوم جمہوریہ منانے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔ آپ کی پارٹی کے سینئرعہدیداران اس بات کو تو دوہراتے رہتے ہیں کہ نئے قانون سے کسی ہندوستانی شہری پر اثر نہیں پڑے گا مگر اس بات کی وضاحت کیوں نہیں کرتے کہ یہ نیا قانون ھندوستان کے آساسی آئین کے آرٹیکل 14 کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے‘‘؟ہم نے میر صاحب کی قانون فہمی کو للکارا۔


’’ارے بھائی یہ سب قانون اب بہت پرانے ہوچکے ہیں ان سب کو اب بدلنے کے ضرورت ہے۔ آپ ذرا پڑوسی ملکوں میں دیکھٰے جہاں پورے کے پورے آئین کو منسوخ کردیا جاتا ہے مگر وہاں کی جنتا پھر بھی جمہوریت کا جشن اسی جوش و خروش سے مناتی رہتی ہے۔ آئین سازی حکمرانوں کا کام ہے تو جمہوریت کا جشن منانا عوام کا کام۔ عوام کو حکمرانوں کے کام میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ بھلا عوام کو قانون کا کیا پتہ؟‘‘ میر صاحب پڑوسی ممالک کی مثال دے کر بڑے مطمئن نظر آرہے تھے۔

’’اچھا میرصاحب یہ فرمائیں کہ ہرسال یوم جمہوریہ کے موقعہ پر دلی میں ملک کے اکثر صوبوں سے لائی گئی لاکھوں روپئے خرچ کرکے تیار کی گئی جھانکیاں کیوں نکالی جاتی ہیں‘‘۔؟ ہم نے میر صاحب سے ایک بہت سنجیدہ سوال کیا۔


بھئی ہم لوگ اس دن پوری دنیا کے سامنے اپنے ملک کے صوبوں کی مختلف رنگ برنگی ثقافتوں کی نمائش کرتے ہوئے اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ ہزاروں زبانیں، مختلف ریت و رواج اور مذاہب رکھتے ہوئے بھی ہم سب ہندوستانیوں کو ہمارے قومی آئین نے برابر کے حقوق دیئے ہیں‘‘ میر صاحب ہمارے سوال کا مقصد سمجھتے ہوئے ہمیں سمجھانے لگے۔

’’تو پھر آپ ہی بتائیے کہ جب ہمارے اس آئین نے ہمیں ہمارے مذہب، زبان اور ثقافت کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جو اس آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے تو پھر آپ کس طرح کوئی ایسا قانون وضع کرسکتے ہیں جو اس آئین کی اصل روح کے خلاف ہو۔ اب کیا آپ یوم جمہوریہ پر آسام سے آئی ہوئی جھانکیوں پر موجود آسامی ہندوستانیوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر ان لوگوں پراپنی ثقافت کی نمائش کرنے کی پابندی لگائیں گے؟ کیا آپ اس دن مدعو کیے گئے کسی بیرونی ملک سے آئے ہوئے مہمان خصوصی سے اپنے ملک کا مختلف ثقافتوں کا تعارف کراتے ہوئے یہ بھی بتائیں گے کہ ان فنکاروں میں کون ہندو ہے اور کون مسلم؟ کیا قوات مسلحہ کی جھانکی پر رکھے ہوئے پرتھوی اور اگنی میزائل کا تعارف کراتے ہوئے یہ بھی بتایا جائے گا کہ ان کا موجد ایک مسلمان تھا‘‘؟ ہم نے میرصاحب کے سوئے ہوئے ضمیرکو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔


’’جناب آپ اس نئے قانون کو یوم جمہوریہ کی تقریبات سے کیوں جوڑ رہے ہیں‘‘۔میر صاحب ہمارے دلائل سن کر کچھ سٹپٹا سے گئے۔

’’تو کیا یوم جمہوریہ منانے کا حق ان ہندوستانیوں کو نہیں ہے جو اس نئے قانون کے خلاف اس سخت سردی کے موسم میں سڑکوں پرنکل کر آحتجاج کر رہے ہیں۔ کیا یوم جمہوریہ کے موقعہ پر دنیا کو یہ نہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس آئین کا آج جشن منایا جا رہا ہے اسی کے دیئے گئے حق اظہار خیال کا استعمال کرنے والے ہندوستانیوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تو کیا اس طرح آئین ہند کی بے حرمتی نہیں کی جارہی ہے‘‘۔ میر صاحب ہماری باتیں سن کر اپنے ساتھ لائے ہوئے بینرس کو پھاڑ کر پیر پٹختے ہوئے باہر چلے گئے۔


بقولے غالب:

کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Jan 2020, 7:11 PM