’اردو زبان اور قانون کا رشتہ بہت گہرا ہے‘

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر شیخ عقیل احمد نے کہا کہ اردو اور قانون کا رشتہ بہت گہرا اور مضبوط ہے یہی وجہ ہے کہ قانونی دستاویزات میں اردو زبان کے الفاظ کا کثرت سے استعمال ہوتا رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: اردو اور قانون کا رشتہ بہت گہرا اور مضبوط ہے یہی وجہ ہے کہ قانونی دستاویزات میں اردو زبان کے الفاظ کا کثرت کے ساتھ استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ بات قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر ڈاکٹرشیخ عقیل احمد نے قومی کونسل کے پینل برائے قانونی مطالعات کی میٹنگ میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی وکلا، جج اورافسران مختلف النوع رپورٹوں، دستاویزوں اور فیصلوں میں اردو کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔اچھا شہری بننے کے لیے بھی قانون سے آگہی ضروری ہے۔انھوں نے کہا کہ قومی کونسل کے تحت مذکورہ پینل گزشتہ کئی برسوں سے قائم ہے، جس کے تحت اردو میں قانون کی اہم اور عمدہ کتابیں شائع کی جاتی ہیں۔


انھوں نے کہا کہ بہت سے پرانے دستاویزات اورعدلیہ کی زبان میں اردو کے بہت سے الفاظ استعمال ہونے کی وجہ سے قانونی شعبوں سے وابستہ افراد اور طلبا کو خاصی دقتیں پیش آتی ہیں۔اس لیے قومی کونسل نے ملک کی یونیورسٹیوں میں موجود لافیکلٹیز،لاء اسکول اور لاء کے دیگر اداروں کے سربراہان کی ایک میٹنگ بلانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ان سے درخواست کی جائے گی کہ قانون کے طلبا کو لاء اینڈ لینگویجز کے تحت جہاں ملک کی دوسری زبانیں پڑھائی جاتی ہیں، وہیں اردو زبان کی تدریس کا بھی بندوبست کیا جائے۔ انھوں نے بتایاکہ لاء اینڈ لنگویجز کے چار سمسٹرز ہوتے ہیں، جن میں سے کم از کم ایک میں اردوضرور پڑھائی جائے تاکہ قانون کے طلبا عدلیہ کی زبان میں مستعمل اردو الفاظ کے معانی واصطلاحات سے کماحقہ واقف ہوسکیں۔

اس موقع پر خواجہ عبدالمنتقم نے قانون داں ح ضرات کے لیے اردوسے واقفیت کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرانی دستاویزات اور بہت سی رپوٹوں میں اردو الفاظ اوراصطلاحات کا استعمال ہوتا ہے جس کے سبب پولس،افسران، جج اور وکلاء کو بعض اوقات بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لیے ان قانونی اداروں سے وابستہ افراد کو کم از کم ان اردو الفاظ سے واقف ہونا ضروری ہے جو قانون کی زبان میں استعمال ہوتے ہیں۔


ڈاکٹر شکیل معین نے قانونی شعبوں سے جڑے ہوئے افراد کو اردو الفاظ کی تفہیم میں پیش آنے والی دشواریوں کے پیش نظر ایک ورکشاپ کے انعقاد کی تجویز پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ ایک ایسی ورکشاپ منعقد کی جائے جس میں تمام پولس،افسران، وکلااور جج شریک ہوں اورعدلیہ یا قانون میں استعمال ہونے والے اردو الفاظ کے معانی ومفاہیم پر بات کی جائے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لا فیکلٹی کی ڈین پروفیسر نزہت پروین خان نے کہا کہ جو پرانے ریکارڈ اردومیں ہیں، انھیں سمجھنے کے لیے قانون کے طلبا کو اردو سکھانی ضروری ہے۔اس سلسلے میں قومی کونسل کی طرف سے لاء فیکلٹیز،لاء اسکولزوغیرہ کے سربراہان کی میٹنگ کا فیصلہ لائق ستائش ہے۔اس طرح یہ قانون کی بھی مدد ہوگی اور اردو کی بھی۔میٹنگ میں ایک ریفریشرکورس کی تجویز پر بھی غور کیاگیا جس کے تحت پولس، کچہریوں میں کام کرنے والے افراد اور ملازمین کو اردو پڑھانے کا بندوبست کیاجائے گا۔


میٹنگ میں جن حضرات نے شرکت کی ان میں ڈاکٹر ظفر محفوظ نعمانی، جناب مصطفےٰ خان ایڈوکیٹ، جناب اقبال احمد، جناب محمد شہنشاہ خان، محترمہ ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی (اسسٹنٹ ڈائریکٹر اکیڈمک)، ڈاکٹر فیروز عالم (اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر)،محترمہ ذیشان فاطمہ اور یوسف رامپوری خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Aug 2019, 8:10 PM