سجاد ظہیر ترقی پسند تحریک کا درخشاں ستارہ

سجاد ظہیر
سجاد ظہیر
user

رخشندہ جلیل

یہ دسمبر 1932 کا ذکر ہے کہ جب ’انگارے ‘ عنوان کے ساتھ لکھنؤ سے ایک کتاب شائع ہوئی۔ اردو میں یہ اپنی طرز کی ایک جدا کتاب تھی، جس میں 9 کہانیاں اور ایک ڈرامہ شامل تھا۔ ان کہانیوں اور ڈرامہ کو لکھنے والے 3 مرد اور ایک عورت تھے۔ ان کے نام سجاد ظہیر، محمود ظفر، احمد علی اور رشید جہاں تھے۔ اس کتاب کے چھپتے ہی گویا ایک قیامت ٹوٹ پڑی ۔ کتاب کے منظر عام پر آنے کے 3 ماہ بعد تک اس کتاب کے مصنفین کے خلاف نہ صرف لعنت و ملامت کا سلسلہ چلتا رہا بلکہ ان کے خلاف فتوے بھی جاری ہو گئے۔ کتاب کے خلاف اس قدر ہنگامہ آرائی ہوئی کہ اس وقت کی ’یونائٹیڈ پراونس ‘کی انگریز حکومت نے اس کتاب کو 15 مارچ 1933 کو ممنوع قرار دے دیا۔

ادھر اس کتاب کو چھاپنے والے مشہور زمانہ ’نظامی پریس ‘ کے مالک علی جاوید نے پریس پر سرکاری چھاپے کے بعد معافی مانگ لی ۔ علی جاوید نے اپنے معافی نامے میں فروری 1933 کو باقائدہ مسلم سماج کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لئے معافی مانگی۔ انہوں نے یہ شرط بھی تسلیم کر لی کہ وہ ’انگارے‘ کی تمام جلدیں پولس کے حوالے کر دیں گےاورجو ان کے پاس کتابیں ہیں وہ ان کو اب فروخت نہیں کریں گے ۔

’انگارے ‘ کی تمام جلدیں جلا دی گئیں، بس کسی طرح 5 جلدیں بچیں۔ لیکن اس ’رسوائے زمانہ ‘ کتاب نے اس وقت اردو سماج میں جو ہنگامہ بپا کیا اس کی نظیر اس وقت تک نہیں ملتی۔ اس ہنگامہ آرائی کے سبب اس کتاب کے مصنفین (بالخصوص سجاد ظہیر جنہوں نے اپنے خرچے پر یہ کتاب چھپوائی) راتوں رات پڑھے لکھے طبقوں کے درمیان ہیرو بن گئے ۔ اپنے شروعاتی دور میں ’انگارے‘ شاید چند افراد ہی پڑھ سکےتھے۔ جنہوں نے یہ کتاب پڑھی بھی تھی وہ بھی سماجی خوف سے اس کا ذکر نہیں کرتے تھے۔

اس طرح ’انگارے‘ ایک نئے ادب کا سنگ میل ثابت ہوئی، ایک ایسا ادب جو سماجی معاملات کی عکاسی کرنے والا ادب ثابت ہوا۔اور ’انگارے‘ نے سجاد ظہیر کو تو انقلابی ادب کے ساتھ ایسا جوڑا کہ وہ ایک نئی تحریک کے علمبرداربن گئے۔

آج 5 نومبر کو جب ہم سجاد ظہیر کا 112 واں یوم پیدائش منا رہے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ ہم سجاد ظہیر کی وراثت پر بھی نگاہ ڈالیں۔ ’انگارے‘ کی اشاعت سے ذرا قبل سجاد ظہیر (1905-1973) لندن سے بی اے کی ڈگری حاصل کر واپس لوٹے تھے۔ وہ اودھ کے ایک مشہور گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے والد سر وزیر حسن اودھ کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ لندن میں پڑھائی کے دوران سجاد ظہیر پر کمیونسٹ خیالات کا گہرا اثر پڑا اور وہاں ان کے حلقہ احباب میں کرشنا مینن ، ملک راج آنند جیسے عالم شامل تھے۔ آکسفورڈ میں اپنی پڑھائی کے دوران وہ پہلے سال ہی میں بیمار پڑ گئے اور ایک سال تک سوئزرلینڈ میں زیر علاج رہے۔ اس دوران انہوں نے جرمن اور فرانسیسی زبان پر مہارت حاصل کر لی۔ انگلینڈ واپس لوٹ کر سجاد ظہیر کی ملاقات کرشمائی کمیونسٹ لیڈر شاپورجی سے ہوئی اور جلد ہی وہ ’آکسفورڈ مجلس ‘ میں شامل ہو گئے۔ جلد ہی انہوں نے Second Congress of the League against the Imperialism میں شرکت کی۔ جہاں ان کی ملاقات ویرین چٹوپادھیائے، سومیندر ناتھ ٹیگور، این ایم جے سوریا (سروجنی نائڈو کے بیٹے) اور راجا پہندر پرتاپ جیسی شخصیات سے ہوئی ۔ اس لیگ کانفرنس سے وہ یہ سبق لے کر لوٹے کہ قومی آزادی تحریک کا دنیا بھر کی تحریکوں کے ساتھ رشتہ ہونا چاہئے۔ اسی دوران آکسفورڈ کے مارکسی عالم ڈیوڈ گیٹ نے ان کا تعارف کارل مارکس کی مشہور کتاب Das Capital سے کروا دیا ۔ ساتھ ہی سجاد ظہیر نے لینن کی کتاب What is to be done کا بھی مطالعہ کیا۔ اس کتاب سے ان کو کمیونسٹ تنظیم کے بارے میں علم ہوا۔ ساتھ ساتھ وہ لندن سے شائع ہونے والے Labour Monthly اور Daily Worker جیسے مشہور ومعروف جریدے بھی پڑھتے تھے۔ اپنی کتاب ’یادیں ‘ میں سجاد ظہیر نے اس دور کے لندن کی ہنگامہ آرائیوں کا خصوصاً ذکر کیا ہے۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں: ’’ہم آہستہ آہستہ سوشلزم کی طرف بڑھتے جا رہے تھے۔ ہم ذہنی طور پر ایک ایسے فلسفے کی تلاش میں تھے جس کی روشنی میں ہم سماج کی گتھیاں سلجھا سکیں۔ مجھ کو یہ بات قبول نہ تھی کہ سماج میں جو ہمیشہ سے پریشانیاں تھیں اورہمیشہ یہ پریشانیاں برقرار رہیں گی۔ یونیورسٹی کی تعلیم پوری ہونے کے بعد یہ (مارکسزم) ہمارے لئے ایک نئی تعلیم کا ذریعہ بن گئی ۔‘‘

’انگارے ‘ پر پابندی لگنے کے بعد سجاد ظہیر جلد ہی واپس قانون کی ڈگری حاصل کرنے لندن چلے گئے۔ وہاں وہ انگلینڈ کی کمیونسٹ پارٹی سے جڑ گئے جہاں اپنے ہم خیال ، ہم عصرو ں کے ساتھ مل کر انہوں نے ایک دستاویز تیار کی۔ جس کی بنیاد پر انہوں نے ’ترقی پسند رائٹرس ایسوسیشن ‘ (PWA)کی بنیاد رکھی ۔ ہندوستان لوٹتے ہی اپریل 1936 میں انہوں نے لکھنؤ میں PWAکی پہلی کل ہند کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں وہ پی ڈبلیو اے کے پہلے سیکریٹری منتخب ہوئے ۔ انہوں نے اردو میں پہلا مارکسی ادبی جریدہ ’چنگاری ‘ سوہن سنگھ جوش کے ساتھ مل کر شروع کیا اور سن 1935 میں ’لندن ‘ کی ایک رات نام کی ناول اور ’نقوش زنداں‘ ( جیل سے اپنی اہلیہ کو لکھے خطوط) مجموعہ سن 1940 میں شائع کیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے ’روشنائی( 1956 )‘ ، ’ذکر حافظ (1958)‘، شاعری کا مجموعہ ’پگھلتے نیلم (1964)‘ جیسی کتابیں بھی شائع کیں۔ لیکن وہ ہمیشہ ایک کمیونسٹ پارٹی ورکر اور آرگنائزر کے طور پر کام کرتے رہے۔ چونکہ ان کے نہرو خاندان سے خاندانی تعلقات تھے اس وجہ سے انہوں نے تھوڑے عرصہ تک بطور سکریٹری جواہر لعل کے ساتھ 1930 کی دہائی میں کام کیا۔ لیکن وہ جلد ہی کانگریس پارٹی سے بے دخل کر دئیے گئے جس کے بعد وہ باقاعدہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر ہو گئے۔ جس کی سنٹرل کمیٹی کے بھی وہ رکن رہے۔ لیکن ان کو ہمیشہ جدید اردو ادب میں ان کے گہرے اثرات کے لئے یاد کیا جائے گا۔

حالانکہ انہوں نے ایسی کچھ بہت زیادہ ادبی کتابیں تصنیف نہیں کیں ۔ لیکن ادبیات پر ان کی گرفت اور ادب کو کس طرح سماجی تبدیلی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ان باتوں کے لئے سجاد ظہیر کو ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔ ان کی پرورش اور ان کی وسیع النظری نے ان کو یہ اہلیت بخشی کہ وہ ہندوستان کے ابھرتے ادیبوں کو ایک نئی فکر اور نئے موضوع سے روشناس کرا سکیں۔ ’انگارے‘ میں جو ان کی 5 کہانیاں ہیں وہ اپنے دور کے اردو ادب سے بالکل مختلف تھیں ۔ ہر کہانی میں انہوں نے سماج کے ان دبے کچلے لوگوں کی کہانی پیش کی ہے جن کے بارے میں اس وقت کوئی سوچتا بھی نہیں تھا۔ مثلاً گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیاں جو غلاموں کی طرح اپنے مالکان کی خدمت میں اپنی زندگی کیسے گزارتی ہیں۔سجاد ظہیر نے اپنی کہانیوں میں Stream of consciousness اور interior monologue جیسی مغربی ادبی ترکیبوں کا استعمال کیا جس کا استعمال James Joyce اور DH Lawrance جیسے ادیب مغرب میں استعمال کر چکے تھے ۔

آج جبکہ ترقی پسند ادب میں پھر دلچسپی پیدا ہوئی ہے تو اس دور میں ترقی پسند تحریک کے بانی سجاد ظہیر جیسی شخصیت کے مطالعہ کی بھی سخت ضرورت ہے۔ ترقی پسند رائٹرس ایسوسیشن نے سن 1930 اور سن 1950 کے درمیان ہندوستانی ادب کو سماجی تبدیلی سے جوڑنے کا جو کلیدی کردار ادا کیا اس کو آج سب ہی تسلیم کرتے ہیں ۔ اس تحریک اور اس کے بانیان نے سماجی، سیاسی اور ادبی میدان میں نہ صرف اپنا ایک مقام بنایا بلکہ تین دہائیوں تک ان کے سبب نئے ادب نے بھی جنم لیا۔ آزادی سے قبل انہوں نے جنگ آزادی کے تعلق سے ہونے والی بحث کو نظریاتی طور پر اثر انداز کیا اور آزادی کے بعد انہوں نے آزاد ہندوستا ن کے معاشرے کے خد و خال کو بھی اپنے خیالات سے متاثر کیا۔ تقریباً ان تیس برسوں کے درمیان ترقی پسند ادب عالم ادب پر چھایا رہا ، اس پوری مدت میں سجاد ظہیر اس تحریک کے نگہبان کی حیثیت سے کارگر رہے۔

مارچ 1948 میں ان کو کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی قائم کرنے کے لئے بھیج دیا۔ وہاں وہ فیض احمد فیض اور 14 دیگر افراد کے ساتھ ’راولپنڈی سازش ‘معاملہ میں گرفتار ہوئے اور انہوں نے کافی مدت پاکستان کی جیل میں کاٹی۔ سن 1955 میں جیل سے رہائی کے بعد وہ واپس ہندوستان آ گئے لیکن جیسا کہتے ہیں ’چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا‘ اور وہی سجاد ظہیر کے ساتھ بھی ہوا۔ ہندوستان لوٹ کر اب ترقی پسند تحریک کے نئے مشغلے تھے۔ اب وہ ایشیاء اور افریقہ کے نو آزاد ممالک کے ادیبوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے میں مصروف ہو گئے۔

ترقی پسند تحریک کے ساتھ سجاد ظہیر کے گہرے رشتوں سے واضح ہے کہ وقت کے ساتھ کس طرح ،کسی تحریک کا عروج و زوال تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا بنیادی نظریہ کبھی نہیں مٹ سکتا۔ سجاد ظہیر نے ہندوستانی ادب کو جس ترقی پسندی سے جوڑا وہ خیال آج بھی زندہ و پائندہ ہے اور یہ خیال تب تک زندہ رہے گا جب تک کوئی بھی ادیب کسی ناانصافی ، غربت اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائے گا اور اسی کے ساتھ سجاد ظہیر کی ادبی خدمات بھی زندہ رہیں گی۔

(رخشندہ جلیل Liking Progress, Loving Change: A Literary History of the Progressive Writers' Movement کی مصنفہ ہیں۔)

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Nov 2017, 6:53 PM