عظیم شاعر مضطر خیر آبادی ۔۔نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں ۔۔

مضطر خیر آبادی اپنی شاعری میں درد و کرب اور جذبات و احساسات کی بہترین ترجمانی کرنے لیے جانے جاتے ہیں

مضطر خیرآبادی کا اسکیچ
مضطر خیرآبادی کا اسکیچ
user

قومی آوازبیورو

اتر پردیش کے خیرآباد میں 1865 کو پیدا ہوئے مضطر خیرآبادی معروف مجاہد آزادی اور مشہور اسلامی اسکالر، فلسفی و شاعر فضل حق خیرآبادی کے نواسے تھے۔ مضطر ریاست ٹونک کے درباری شاعر بھی تھے اور اس سلسلے میں ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ دربار میں مشاعرہ تھا۔ مضطر خیر آبادی معمول کے مطابق وہاں پہنچے۔ مشاعرہ کا خیال نہ تھا اس لیے غزل کا انتظام نہ کر سکے تھے۔ نواب صاحب نے اصرار کیا کہ پہلی غزل استاد کی ہوگی۔ فرمائش سن کر جیب سے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکال کر غزل سنانے کھڑے ہو گئے۔ ہر شعر پر داد و تحسین مل رہی تھی۔ اس وقفہ میں وہ دوسرا شعر تیار کر لیتے تھے۔ اسی طرح پوری غزل کہہ ڈالی۔ نواب صاحب نے غزل طلب کی تو کاغذ پیش کر دیا۔ نواب صاحب نے سادہ کاغذ دیکھ کر تعجب سے مضطر کی طرف دیکھا۔ مضطر خیر آبادی نے نواب صاحب کو حقیقت حال سے روشناس کرایا۔

خان بہادر، اعتبارالملک اور افتخارالشعراء جیسے خطابات و القابات سے نوازے جا چکے مضطر اپنی شاعری میں درد و کرب اور جذبات و احساسات کی بہترین ترجمانی کرنے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی غزل 'نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں...' ایک ایسی ہی غزل ہے جس کے بارے میں کئی لوگ زمانے تک یہی سمجھتے رہے کہ بہادر شاہ ظفر نے لکھی ہے۔ دراصل اس غزل میں بربادی اور تنگ حالی کا جس طرح بیان کیا گیا ہے اس سے لگتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر مغلوں کی حالت زار اور دہلی کی بربادی بیان کر رہے ہیں، لیکن یہ غزل تو ملک کی بدحالی سے متاثر ہو کر مضطر نے لکھی تھی۔ یہاں مذکورہ مکمل غزل قومی آواز کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے:

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

کسی کام میں جو نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

نہ دوائے درد جگر ہوں میں نہ کسی کی میٹھی نظر ہوں میں

نہ ادھر ہوں میں نہ ادھر ہوں میں نہ شکیب ہوں نہ قرار ہوں

مرا وقت مجھ سے بچھڑ گیا مرا رنگ روپ بگڑ گیا

جو خزاں سے باغ اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں

پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں

کوئی آ کے شمع جلائے کیوں میں وہ بیکسی کا مزار ہوں

نہ میں لاگ ہوں نہ لگاؤ ہوں نہ سہاگ ہوں نہ سبھاؤ ہوں

جو بگڑ گیا وہ بناؤ ہوں جو نہیں رہا وہ سنگار ہوں

میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا

میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں

نہ میں مضطرؔ ان کا حبیب ہوں نہ میں مضطرؔ ان کا رقیب ہوں

جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔