’ملک کو کثیر تعداد میں نفرت کے غداروں کی ضرورت ہے‘

مورخ، مترجم اور مصنفہ رخشندہ جلیل نے کرشن چندر کے ناول ’غدار‘ کا انگریزی ترجمہ ’ٹریٹر‘ نام سے شائع کرایا ہے۔معروف شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر نے اس کا اجراء کیا۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

عمران خان

نئی دہلی ۔اردو کے معروف ناول نگار کرشن چندر کی تقسیم ہند پر مبنی تصنیف ’غدار‘ کو ’ویسٹ لینڈ پبلی کیشن لمٹیڈ ‘نے نئی شکل میں شائع کیا ہے ۔ معروف مورخ، مترجم اور مصنفہ رخشندہ جلیل نےاس کا انگریزی ترجمہ کیا ہے اور اس کا عنوان ’ٹریٹر‘ دیا ہے۔

رسم اجراء کے موقع پر رخشندہ جلیل نے کہا کہ ’غدار ‘ کا ترجمہ کرنے کی ترغیب انہیں جاوید اختر نے دی تھی اس لئے وہ اسے انہیں کے نام منسوب کرتی ہیں۔ تقریب میں بطور مہمان خصوصی موجود جاوید اختر نے ناول کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نےسب سے پہلے یہ ناول کالج کے دنوں میں پڑھا تھا اور جب بھی وہ اسے پڑھتے ہیں وہ اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کے ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔

واضح رہے کہ ’غدار‘کرشن چندر کی ایک معروف تصنیف ہے جو بنیادی طور پر اردو میں شائع ہوئی تھی۔ ناول کے پس منظر میں تقسیم ہند کا بیان بہت ہی باریکی سے کیا گیا ہے۔ ’غدار ‘ کا اہم کردار (ہیرو) لاہور میں رہتا ہے اور اسے ہندو ہونے کی وجہ سے تقسیم کے وقت مجبوراً اپنا وطن چھوڑنا پڑتا ہے اور وہ امرتسر پہنچتا ہے۔ لاہور سے امرتسرتک کے اس سفر کے دوران جو جو واقعات پیش آتے ہیں وہ تقسیم ہند کی تلخ حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں ۔



’ملک کو کثیر تعداد میں نفرت کے غداروں کی ضرورت ہے‘

تقریب کے دوران جاوید اختر نے کہا کہ جب ہم کرشن چندر کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں ان کے پس منظر کو بھی سمجھنا ہوگا۔آزادی سے قبل1936 میں اس وقت کے ادیبوں نے مل کر پروگریسیو رائٹرس ایسو سی ایشن کا قیام کیا تھا۔ اس گروپ میں کرشن چندر، منٹو، منشی پریم چند اور دیگر مصنفین شامل تھے۔ ان سبھی کا ماننا تھا کہ ان کی کہانیوں اور شاعری کا مقصد محض تفریح تک ہی محدود نہ رہے بلکہ ماحول کی تبدیلی کی وجہ بھی بنے۔

کرشن چندر کے ناول ’ غدار ‘کے حوالے سے جاوید اختر نے کہا کہ یہ کہانی تقسیم ہند کے وقت کی ہے۔ جیسے ہی بٹوارہ ہوا پاکستان سے ایک شخص چلا اور امرتسر پہنچا اور دوران سفر اس نے جو کچھ بھی دیکھا، اس کے تعلق سے وہ کیا سوچتا ہےاسی سب کی منظرکشی اس ناول میں ہے۔



’ملک کو کثیر تعداد میں نفرت کے غداروں کی ضرورت ہے‘

تقسیم ہند کی صورت حال کو انسانی تاریخ کی بدترین صورت حال قرار دیتے ہوئے جاوید اختر نے کہا کہ غدار کی کہانی 1947 کی بربریت کو جس طرح سے بیان کرتی ہے وہ اپنے آپ میں منفرد ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کالج کے وقت میں یہ کہانی پڑھی تھی لیکن آج بھی اسے پڑھنے کے دوران ہر دو صفحات کے بعد ان کے آنسو نکل پڑتے ہیں۔جاوید اختر کے مطابق یہ ناول کرشن چندر کو کرشن چندر بناتا ہے اور غدار کی ایک دوسری تعریف بھی پیش کرتا ہے۔



’ملک کو کثیر تعداد میں نفرت کے غداروں کی ضرورت ہے‘

جاوید اختر نے ناول کے چند مکالموں کے ذریعہ کرشن چند ر کے پلاٹ کو اجاگر کیا ۔ مثلاً ، انہوں نے ناول کے اس مکالمے کا ذکر کیا ’’ وہ اپنی کتیا سے کہتا ہے، تو واپس چلی جاکیوں کہ تونے کبھی نماز نہیں پڑھی ، پوجا نہیں کی ۔ تو نہیں جانتی کہ جمہوریت کیا ہے اس لئے وہ تجھے قبول کر لیں گے ۔ کیوں کہ تو انسان نہیں ہے بلکہ ایک جانور ہے۔‘‘

جاوید اختر نے مزید اس سلسلے میں کہا ’’اہم کردار ایک جگہ کہتا ہے، تھوڑا بہت ظلم تو میں نے بھی کیا ہوگا، تھوڑا بہت اندھیرا تو میرے دل میں بھی رہا ہوگا۔ تھوڑا تعصب تو مجھ میں بھی ہوگا لیکن اتنا ظلم، اتنا اندھیرا، اتنا خون خرابہ اس کی تو کوئی حد ہی نہیں ہے؟ ‘‘۔غالباً سن 1947 کے بٹوارے کو آج کے ماحول میں تشبیح دے رہے تھے ۔گو کہ آج 1947 جیسی خونریزی تو نہیں لیکن ماحول کچھ قوموں کے بٹوارے جیسا ہی ہے ۔ کرشن چند رکی ناول ’غدار‘ کی یہی خوبی اس کی اس ناول کو کو آج بھی کار آمد بنا دیتی ہے۔



’ملک کو کثیر تعداد میں نفرت کے غداروں کی ضرورت ہے‘

تقریب کے دوران لنچنگ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں جاوید اختر نے کہا ،’’کوئی بھی سماج اس بات سے مبّرا نہیں ہے کہ اس میں ایک گروپ تخریب کار نہ ہو ،لیکن عام آدمی اس تخریب کاری کا حصہ نہیں ہے۔ لیکن کبھی کبھی کچھ وجوہات سے عام آدمی اس گروپ کا حصہ بن جاتا ہے۔ آج کا جو ماحول ہے وہ محض ہندوستان ہی نہیں بلکہ پورے بر صغیر کی کہانی ہے اور یہ تعصب کسی خاص مذہب یا فرقے یا لوگوں کے خلاف نہیں ہےبلکہ اس میں ہر طرح کی اقسام موجود ہیں۔‘‘

کشمیری عوام کو پیغام دیتے ہوئے جاوید اختر نے کہا کہ غلطی حکومتوں کی ہو سکتی ہے لیکن انہیں ہندوستانی آئین پر یقین رکھنا چاہیے۔ اگر کشمیری ہندوستان کو اپنا حقیقی ملک تصور کریں گے تو ہندوستان کا ہر شخص ان کے ساتھ کھڑا نظر آئے گا ،لیکن انہیں پاکستان اور آئی ایس کے پرچم لہرانے بند کرنے ہوں گے۔

کشمیر پر سوال پوچھنے والے راہل گھوش نے بعد میں پروگرام کے تعلق سے اپنی ایک پوسٹ پر امیر مینائی کا یہ شعر تبصرے کے طور پر لکھا، ’’خنجر چلے کسی پے تڑپتے ہیں ہم امیر، سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔‘‘

’ٹریٹر‘ کی مصنفہ رخشندہ جلیل نے کہا کہ ’’کرشن چندر کے ناول ’غدار‘ کا ہیرو جب انسانیت کی بات کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ سماج میں تشدد اور نفرت نہیں ہونا چاہیے تو اسے لوگ ’غدار ‘ کے لقب سے نوازتے ہیں‘‘۔

رخشندہ کے مطابق آج کے اس دور میں نفرتوں کا جو ماحول، تشدد کی جو ہوائیں اور فرقہ پرستی کی جولہرہے ان سب سے مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر نفرت کے خلاف بولنے والوں کو ’غدار ‘ قرار دیا جاتا ہے تو پھر ہمیں کثیر تعداد میں نفرتوں کے ’غداروں‘ کی ضروت ہیں۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Oct 2017, 2:08 PM