میر دریا ہے... گوہر رضا

میر تقی میر اور اسداللہ خان غالب، یہ ایسی دو شخصیتیں ہیں جن کے بعد نہ تو ہندوستان وہ رہا جو ان سے پہلے تھا اور نہ ہی اردو زبان وہ رہی جو ان سے پہلی تھی

میر تقی میر
میر تقی میر
user

گوہر رضا

18ویں اور 19ویں صدی میں ہونے والی سماجی اتھل پتھل، ٹوٹتے ہوئے ڈھانچے اور اس وقت کی موجودہ قدروں کے بکھراؤ نے ہندوستان اور اردو زبان کو دو بڑے شاعر دیے... میر تقی میر اور اسداللہ خان غالب، یہ ایسی دو شخصیتیں ہیں جن کے بعد نہ تو ہندوستان وہ رہا جو ان سے پہلے تھا اور نہ ہی اردو زبان وہ رہی جو ان سے پہلی تھی۔ جب میر نے اردو ادب کی دنیا میں قدم رکھا تو پرانا سماجی ڈھانچہ بوڑھا ہو کر منہدم ہو رہا تھا اور اردو طفل مکتب کی عمر پوری کر کے جوانی میں قدم رکھ رہی تھی۔ ان دونوں میں گہرا رشتہ تھا۔ بکھراؤ کا یہ عمل جاری تھا اور غالب کا دور ختم ہوتے ہوتے پرانا سماجی ڈھانچہ تہس نہس ہو کر بکھر چکا تھا۔ اس کے کھنڈروں کے نقش تو بچے تھے مگر اس حال کو پہنچ گئے تھے کہ انھیں پھر اکٹھا کر کے دوبارہ بادشاہت پر مبنی کوئی نئی عمارت کھڑی کرنا ناممکن تھا۔ ادب میں پرانے دور کا مرثیہ رقم کرنے کی روایت تو بڑے زمانے تک چلتی رہی مگر زیادہ تر فنکاروں کو یہ احساس تھا کہ لوٹ کر آنے کے امکان ختم ہو چکے تھے۔

میر تقی میر کے دورِ زندگی میں انگریزی سماج نے ہندوستان میں اپنے پیر پوری طرح نہیں جمائے تھے مگر یہ بات سب پر آشکارا تھی کہ آنے والا دور سخت ترین ہوگا اور عوام کے لیے نئی مصیبتیں ساتھ لے کر آئے گا۔ میر کی نظر اس وقت کے ٹوٹے ہوئے نظام پر تھی اور وہ اس نظام کی بربادی کے حالات کی عکاسی کرنے کے لیے جن الفاظ کا استعمال کر رہے تھے ان میں سے بہت سارے اردو زبان میں پہلی بار استعمال ہوئے۔ مثال کے طور پر اجڑا دیار، غبارِ وطن، گورے، قفس، کاسۂ سر، ترکِ اسلام، وحشت، گل، خزاں، شمع، پروانہ، لہو، کف قاتل، دیوانہ وغیرہ جیسے الفاظ متعدد طرح سے استعمال کیے گئے۔ میر نے ہر لفظ کے معنوی دائرے کو کچھ اس طرح پھیلا دیا جیسے کمہار چاک پر گیلی مٹی کو پھیلا کر برتن گڑھتا ہے۔ الفاظ، تشبیہات، تلمیحات اور ان سے گڑھی جانے والی خیالات اور حقیقت کی منظر کشی نے اردو زبان میں اتنی وسعت پیدا کر دی کہ اب پیچیدہ سے پیچیدہ خیالات کا اظہار اس زبان میں کیا جا سکتا تھا۔ زبان کو خیال اور خیال کو زبان کی ضرورت لازم و ملزوم ہوتی ہے اور پیچیدہ خیال کے اظہار کو ایسی زبان درکار ہوتی ہے جس میں اس کا اظہار کیا جا سکے۔ میر کی شاعری نے اردو کو زبان اور خیال دونوں کی وسعت بخشی۔ اس لیے میر تقی میر کو بجا طور پر ’خدائے سخن‘ اور ’بابائے اُردو‘ جیسے خطابوں سے یاد کیا جاتا ہے۔

میر کے یہاں یوں تو خیال کی پیچیدگہ اور زبان کی سادگی کی ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر مجھے یوں تو پوری غزل بہت پسند ہے مگر یہ شعر خاص طور سے پسند ہے:

دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا

ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

شاید اردو نہ جاننے والوں کے لیے ’بے خود کیا‘ کی ترکیب مشکل ہو ورنہ اس شعر کا ہر لفظ شمالی ہندوستان کی مٹی کی خوشبو میں بجھا ہوا ہے۔ خیال کی سطح پر اس شعر کو کوہِ طور کے قصے سے جوڑا جا سکتا ہے، عشق حقیقی اور عشق مجازی سے جوڑا جا سکتا ہے، یہ شعر روز مرہ کے تجربات کی بھی عکاسی کرتا ہے اور قدرت کے اصولوں کی تلاش میں اتنا کھو جانے کو بھی کہ کوئی اپنا آپ کھو دے۔

ایک اور عام فہم اور مشہور غزل ہے جس کا پہلا مصرع ہے ’الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘۔ اس غزل میں ہر شعر اس دور کا مرثیہ معلوم ہوتا ہے۔ اس غزل کے کچھ عام یادش کا حصہ ہیں۔ یہ شعر اس دور کی مذہبی اور سیاسی قاعدہ کی سخت الفاظ میں مذاحمت کرتے ہیں۔

سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں

بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا

شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں

جبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا

ذو معنی اشعار، جس میں ایک شعر کے ایک سے زیادہ مطلب ہوں، لکھنا زبان کی وسعت کو بڑھانے کی ایک ترکیب ہے جسے غالب نے معراج تک پہنچا دیا۔ ذو معنی شعر میر سے پہلے بھی ملتے ہیں اور ان کے دور کے دوسرے شعرا نے بھی کہے ہیں۔ مگر میر کے یہاں ان کی کثرت بھی ہے اور ان اشعار کے الفاظ آسان ہونے کے باوجود زبان میں پیچیدگی بھی ہے، مثال کے طور پر:

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا

لہو آتا ہے جب نہیں آتا

اس شعر کو کئی طرح سے پڑھا جا سکتا ہے اور ہر طریقہ قاری کو نئے اور مکمل معنی تک لے جائے گا۔ لگتا ہے کہ میر، غالب کے لیے زمین ہموار کر رہے تھے۔ اس لیے غالب نے عقیدت سے میر کے بارے میں لکھا:

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ

آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

اور

ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

میر کو میں اس لیے بڑا شاعر ہی نہیں اُردو زبان کا ایک بڑا اہم اور تاریخی موڑ مانتا ہوں کہ انھوں نے آنے والی کئی صدیوں تک آنے والے شاعروں اور ادیبوں کے لیے نئی راہیں کھول دیں۔ میر کو پڑھتے ہوئے بارہا یہ لگتا ہے کہ ہم آج کے کسی شاعر کی غزل، قطعہ، رباعی یا نظم پڑھ رہے ہیں:

چلتے ہو تو چمن کو چلیے

کہتے ہیں کہ بہاراں ہے

پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں

کم کم باد و باراں ہے

یا یہ شعر لے لیں:

گوش کو ہوش کے تک کھول کے سن شورِ جہاں

سب کی آواز کے پردے میں دلہن ساز ہے ایک

لگتا ہے آج کے میڈیا چینل پر میر اس زمانے میں اظہار خیال کر رہے ہیں۔

یہ ایک اور شعر لے لیجیے:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

ایسا لگتا ہے دنیا میں انوائرنمنٹ اور گلوبل وارمنگ پر بحث چل رہی ہے اور میر کہیں بیٹھے اس پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔

میر کی شاعری نے اردو زبان کو اس حد تک پہنچا دیا کہ وہ آنے والے دور میں انقلابی خیالات اور فرنگی راج کے خلاف ابھرنے والی تحریک کی ضرورتوں کو پورا کر سکے۔ اس لیے میر کے بعد پیدا ہونے والا کوئی ایسا شاعر یا ادیب، ہندی اور اردو زبان میں نہیں جس نے ان کی عظمت کے آگے سر نہ جھکایا ہو۔ میر پر لکھنا شروع کرو تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، اس لیے سب سے بہتر ہے کہ بات کو انہی کے اس شعر سے ختم کر دیا جائے:

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی

اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

ایک ایسا دریا جس نے اردو ادب کو صدیوں کے لیے سیراب کر دیا۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔