ارشد منیم کی افسانہ نگاری: زندگی کے کٹھن رنگوں کی عکاس

ارشد منیم نئی نسل کے اہم اردو فکشن نگار ہیں جن کے افسانے سماجی منافقت، دیہی زندگی، طنز اور انسانی کرداروں کی پرتیں کھولنے کے سبب برصغیر میں پذیرائی حاصل کر رہے ہیں

<div class="paragraphs"><p>ارشد منیم / تصویر فیس بک صفحہ</p></div>
i
user

جمال عباس فہمی

ہندوستان میں نوجوان اردو فکشن نگاروں کی ایک ابھرتی ہوئی نسل موجود ہے، جو زیادہ تر 1970ء کے بعد پیدا ہوئی اور 2000ء کی دہائی سے فعال ہے۔ یہ لکھاری جدید ہندوستانی سماج کے مسائل جیسے شہری تنہائی، جنسی شناخت، مہاجرت، فرقہ واریت کے پس منظر میں مسلم شناخت، نفسیاتی پیچیدگیاں، اور گلوبلائزیشن کے اثرات کو موضوع بناتے ہیں۔ ان کی تحریریں ریختہ اور آزاد اشاعت کے ذریعے سامنے آ رہی ہیں ۔ہندوستان میں اردو فکشن کی نئی نسل پاکستان کی نسبت کم ہے، لیکن معیار کسی طور بھی کم نہیں ہے۔ہندوستان کے نئے فکشن نگاروں کی نگارشات بر صغیر ہند و پاک اور اس سے باہر بھی پسند کی جا رہی ہیں۔نئی نسل کے فکشن نگاروں میں ایک نام ارشد منیم کا بھی ہے۔ ارشد منیم کے افسانے ہندو پاک میں یکساں طور سے مقبول ہیں۔ پاکستان کے مستند فکشن نگار ارشد منیم کی تحریروں کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔

ان کا حقیقی نام محمد ارشد ہے اور قلمی نام ارشد منیم۔ 26 اکتوبر 1978 کو پنجاب کے شہر مالیر کوٹلہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں پولیو نے انہیں جسمانی طور پر معذور کر دیاتھا مگر اس معذوری نے ان کے عزم کو کبھی کمزور نہیں ہونے دیا۔ ارشد بارہویں جماعت تک ہی رسمی تعلیم حاصل کر سکے، لیکن زندگی کی غیر رسمی یونیورسٹی نے انہیں اتنا پختہ کر دیا کہ آج وہ نہ صرف ایک کامیاب افسانہ نگار ہیں بلکہ افسانہ کلب (رجسٹرڈ) مالیر کوٹلہ کے صدر، آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر کے چیف کوآرڈینیٹر انڈیا، پاکستان لٹریری سوسائٹی کے صدر انڈیا اور انٹرنیشنل یونین آف رائٹرز کے ممبر بھی ہیں۔ ان کی ادبی خدمات پر متعدد اعزازات مل چکے ہیں جن میں راجندر سنگھ بیدی ایوارڈ، سعادت حسن منٹو ایوارڈ، زیب النساء ایوارڈ اور یو پی اردو اکادمی کے متعدد انعامات شامل ہیں۔

پنجاب کی سرزمین منٹو، کرشن چندر، بلونت سنگھ اور ستیارتھی جیسے قلمکاروں کی سرزمین رہی ہے۔ آزادی کے بعد پنجاب میں افسانہ نگاری کی روایت ماند پڑتی جا رہی تھی۔ اس خلا کو پر کرنے میں بشیر مالیر کوٹلوی کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ انہوں نے 2000 میں افسانہ کلب کی بنیاد رکھی اور نوجوان لکھاریوں کو افسانہ نگاری کی طرف راغب کیا۔ ارشد منیم اسی کلب کے ابتدائی ارکان میں سے ہیں اور ان کے استاد بھی بشیر مالیر کوٹلوی ہی ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ ”قربانی“ 2000 میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے تین افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے: خواب خواب زندگی (2015)، خون کا رنگ (2020) اور لاوا (2021)۔ ان مجموعوں کو متعدد انعامات سے نوازہ جا چکا ہے۔

ارشد منیم کی افسانہ نگاری پر مضامین اور تبصروں کی ایک کتاب بھی ترتیب دی جا چکی ہے۔ یہ کتاب ان کے بھائی اشرف منیم نے مرتب کی ہے۔ جس میں بشیر مالیرکوٹلوی، نور الحسنین، اسلم جمشید پوری، اسرار گاندھی، سید ظفر ہاشمی، ڈاکٹر کہکشاں عرفان، ڈاکٹر ارشاد سیانوی، اسلم آزاد شمسی، صبا انجم جیسے ہندوستانی قلمکاروں نے ارشد منیم کی افسانہ نگاری پر اپنے تاثرات اور تبصرے شامل ہیں جبکہ پاکستان کی ثمینہ سید، فاطمہ خان شیروانی، صائمہ نور اور شگفتہ یاسمین جیسی نئی نسل کی نمائندہ افسانہ نگاروں نے ارشد منیم کی افسانہ نگاری کو سراہا ہے۔


ارشد منیم کا اسلوب سادہ مگر گہرا ہے۔ وہ پیچیدہ جملوں اور مبالغہ آمیز استعاروں سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان کی زبان روزمرہ زندگی کی زبان ہے، اسی زبان میں وہ سماج کے گہرے زخموں کو کھولتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں طنز ایک مسلسل لہر کی طرح موجود رہتا ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ کردار عموماً دیہی یا نیم شہری پس منظر کے سادہ لوگ ہوتے ہیں، مگر ان کے اندر چھپی منافقت، شرافت اور بدمعاشی کی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ افسانے کا اختتام اکثر چونکا دینے والا ہوتا ہے جو قاری کو دوبارہ کہانی کی طرف لوٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ارشد منیم کے افسانوں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مالیرکوٹلہ اور پنجاب کے دیہی/شہری ماحول سے براہِ راست مشاہدات اٹھاتے ہیں، احتجاجی لہجہ رکھتے ہیں اور سماجی ناانصافیوں، جہالت اور توہم پرستی پر کھل کر لکھتے ہیں۔ وہ ہندوستان کے نوجوان اردو فکشن نویسوں کی اس نئی کھیپ کا حصہ ہیں جو روایتی موضوعات کو جدید انداز میں پیش کر رہی ہے۔

معروف ناقد اور فکشن نگار اسلم جمشید پوری کا ارشد منیم کی افسانہ نگاری کے سلسلے میں کہنا ہے کہ ''ارشد منیم کافی پختہ کار ہو گئے ہیں۔ ان کے موضوعات، افسانہ کرنے کا ہنر اور زبان نے بہت سے اچھوتے افسانے اور افسانچے دیے ہیں۔ ان کے افسانے چونکاتے ہیں۔ پڑھتے پڑھتے قاری اختتام پر چونک جاتا ہے۔ وہ اپنے آس پاس کے مسائل کو زبان عطا کرتے ہیں۔ ان کے کردار بھی سادہ اور درمیانہ درجے کے ہوتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں طنز کی چاشنی بھی شامل ہوتی ہے۔ ارشد منیم کے یہاں چہروں کی پرتیں کھلتی ہیں۔ شریف انسان کی بدمعاشی اور بدمعاش انسان کی شرافت قاری کو چونکا دیتی ہے۔“

فکشن نگار نور الحسنین کہتے ہیں کہ ''ارشد منیم تخلیقی بیانیہ کے ہنر سے واقف ہیں۔ افسانے کے پلاٹ اور کرداروں کی تشکیل کا سلیقہ بھی جانتے ہیں۔ ان کے افسانوں کا اسلوب اگرچہ سیدھا سادہ ہے پھر بھی ان کے افسانوں میں ایک تجسس ہے جو قاری سے پوری کہانی پڑھوانے کا دم خم رکھتا ہے۔ وہ افسانے کے آغاز اور کلائمیکس پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے اکثر کلائمیکس قاری کو چونکاتے ہیں اور وہ پھر ایک بار افسانے میں واپس ہوتا ہے۔ یہ بہت بڑی خوبی ہے۔“

پاکستان کی ممتاز افسانہ نگار ثمینہ سید کہتی ہیں ”ارشد منیم کے قلم اور قرطاس میں سلجھاؤ ہے، شائستگی ہے۔ وہ جن مسائل پر دل جلاتے ہیں، کڑھتے ہیں، انہیں کاغذ کے سپرد کر کے ہی شانت ہوتے ہیں۔ ارشد منیم نے اپنی سمت کا تعین کر لیا ہے۔ ان کا اسلوب پختہ اور دوٹوک ہے۔ وہ خیالات کو ان کے خالص روپ میں ڈھالتے ہیں۔ منافقت، ملاوٹ اور مبالغہ آرائی نہیں کرتے۔ وہ اپنے کرداروں کو جیتے ہیں۔“

ارشد منیم کے افسانچوں میں طنز اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ ان کا مشہور افسانچہ ”ثبوت“ اس کی بہترین مثال ہے:

''اس کی طلاق کی وجہ خاوند کی نامردی تھی۔ عدت کے دن پورے ہوتے ہی ایک عورت اس لڑکی کے پاس آئی اور مشورہ دیتے ہوئے بولی: ”تیرے لیے ایک مناسب لڑکا میری نظر میں ہے، تو کہے تو بات چلاؤں؟“ لڑکی نے سوال کیا: ”کیا وہ ٹھیک ٹھاک بھی ہے؟“ جواب ملا: ”ہاں ہاں… کچھ دن پہلے ہی وہ ایک لڑکی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔“


صرف چند سطروں میں سماج کی منافقت، شادی کے تقدس کے نام پر جاری دھندے اور ”ثبوتِ“ کی مسخ شدہ تفہیم کو بے نقاب کر دینا ارشد منیم کی خاصیت ہے۔

ایک اور افسانچہ ’بیٹے‘ میں انسان کی بے حسی اور رشتوں کے بکھراو کوبیان کیا گیا ہے۔

''میں پچھلے کئی دنوں سے سڑک کے کنارے گندگی کے ڈھیر کو کرید کرید کر کھانے کی چیزیں تلاش کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ کہ کسی نے میری پیٹھ پر زور سے ڈنڈا دے مارا۔ یہ دیکھتے ہی میرے رکشک بیٹوں کو غصہ آ گیا اور انہوں نے ڈنڈا مارنے والے کو پکڑا اور پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ میری حفاظت میں وہ ایک انسان کی جان لے کر چلے گئے۔ میں اب بھی اسی جگہ ویسے ہی بیٹھی ہوں۔ کئی دنوں کی بھوکی پیاسی بے حال''۔

ان کے افسانہ ”مہربان“ کا آخری پیراگراف پڑھنے کے قابل ہے جس میں شرابی تاجو قرآن کی حرمت بچانے کے لیے اپنی جان پر کھیل جاتا ہے۔

”اپنے جیتے جی تو میں تمھیں قرآن کی بے حرمتی نہیں کرنے دوں گا۔ رک جاؤ سالو… تاجو ڈان سے تم نہیں بچ سکتے۔ مر جاؤں گا مگر قرآن کو کچھ نہیں ہونے دوں گا۔“ اس کے پاس ہی ڈنڈا پڑا تھا جس پر خون لگا ہوا تھا۔ مسجد سے ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور بولا: ”میں ابھی مسجد کے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج دیکھ کر آیا ہوں۔ وہ دو آدمی تھے۔ تاجو نے بڑی دلیری کے ساتھ انھیں قرآن شریف شہید کرنے سے روکا ہے۔“ فیاض نے تاجو کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ اسے زمین پر پڑا تاجو واقعی میں کوئی ڈان محسوس ہونے لگا تھا''۔

یہاں ایک شرابی، جو سماج کی نگاہ میں بدمعاش ہے، مذہبی جنونیت کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ کرداروں کی پرتیں کھولنے کا شاہکار نمونہ ہے۔ افسانہ ایک زبردست ڈرامائی موڑ پر ختم ہوتا ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ ظاہری تصویر اور اندرونی حقیقت میں کتنا فرق ہو سکتا ہے۔

ارشد منیم کے موضوعات میں جنسی منافقت، مذہبی جنون، دیہی زندگی کی کٹھنائیاں، طبقاتی تقسیم، سماجی ظلم، جانوروں اور انسانوں کے تعلق کی علامتیں، شادی کے ادارے کی بگڑتی شکل اور انسان کے اندر چھپی شرافت و بدمعاشی نمایاں ہیں۔ وہ مسائل کو براہ راست نہیں، بلکہ طنز اور علامت کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ ان کی تحریر میں کوئی شکوہ نہیں، کوئی واویلا نہیں؛ صرف ایک ٹھنڈی، تلخ مسکراہٹ ہے جو قاری کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔

آج جب اردو افسانہ شہری مسائل، نفسیاتی پیچیدگیوں اور تجریدی اسلوب کی طرف زیادہ مائل ہے، ارشد منیم دیہی و نیم شہری زندگی کے مسائل پر قلم اٹھا رہے ہیں۔ وہ منٹو کی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں— نہ خوف سے ڈرتے ہیں، نہ کسی دباؤ میں آتے ہیں۔ ان کی تحریر میں وہی بے باکی ہے جو منٹو کی تھی، مگر اسلوب بالکل اپنا ہے۔

جسمانی معذوری نے ارشد منیم کو کبھی کمزور نہیں کیا، الٹا ان کی تحریر کو غیر معمولی قوت عطا کی۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر جو لکھتے ہیں، وہ غیر معزور قلمکاروں سے کہیں زیادہ گہرا اور جرات مندانہ ہے۔ اردو افسانے کے مستقبل میں ارشد منیم کا نام ضرور بلضرور ایک جرات مند قلمکار کی حیثیت سے شامل رہےگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔