دستِ زلیخا... مشتاق احمد یوسفی کی یاد میں

4 ستمبر 1923 کو ہندوستان کے جے پور میں آنکھیں کھولنے والے اس نایاب ہیرے کی موت یقیناً دنیائے ادب کے لیے ناقابل تلافی خسارہ ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

پاکستان کی جانب سے ‘ستارہ امتیاز’ اور ‘ہلال امتیاز’ جیسے اعزاز سے سرفراز مشہور زمانہ طنز و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی گزشتہ 20 جون 2018 کو اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ دیا اور اپنے پیچھے بے شمار ادب پارے چھوڑ گئے جو انھیں رہتی دنیا تک زندہ رکھیں گے۔ 4 ستمبر 1923 کو ہندوستان کے جے پور میں آنکھیں کھولنے والے اس نایاب ہیرے کی موت یقیناً دنیائے ادب کے لیے ناقابل تلافی خسارہ ہے۔ وہ طنز و مزاح کے میدان میں اپنے منفرد لہجے اور تلخ، لیکن قابل توجہ جملوں کے لیے ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے۔ چند تصویر بتاں، جنون لطیفہ، یہاں کچھ پھول رکھے ہیں، ہوئے مر کے ہم جو رسوا جیسی بے بہا تحریریں موجودہ سماج کا آئینہ معلوم ہوتی ہیں۔ یہاں ‘قومی آواز’ کے قارئین کے لیے طنز و مزاح کی چاشنی میں ڈوبی ہوئی ان کی مشہور تحریر ’دستِ زلیخا‘ پیش خدمت ہے جو ان کی تحریری دلکشی کا بہترین نمونہ ہے۔

بابائے انگریزی ڈاکٹر سمویل جانسن کا یہ قول دل کی سیاہی سے لکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص روپے کے لالچ کے علاوہ کسی اور جذبے کے تحت کتاب لکھتا ہے، اس سے بڑا احمق روئے زمین پر کوئی نہیں۔ہمیں بھی اس کلیّے سے حرف بہ حرب اتّفاق ہے، بشرطیکہ کتاب سے مراد وہی ہے جو ہم سمجھے ہیں، یعنی چیک بک یا روکڑبہی۔ دیباچے میں یہ وضاحت ازبس ضروری ہے کہ یہ کتاب کس مالی یا الہامی دباؤسے نڈھال ہوکرلکھی گئی۔ چنانچہ جو اہل قلم ذہین ہیں، وہ مشک کی طرح خود بولتے ہیں۔ جو ذرا زیادہ ذہین ہیں، وہ اپنے کندھے پر دوسروں سے بندوق چلواتے ہیں۔ یعنی تاریخ وفات، آلہ قتل اور موقع واردات کا انتخاب صاحب معاملہ خود کرتا ہے۔ اور تعزیرات پاکستان میں یہ واحد جرم ہے، جس کی سزا صرف اس صورت میں ملتی ہے کہ ملزم ارتکاب جرم میں کامیاب نہ ہو۔1961 میں پہلی ناکام کوشش کے بعد بحمداللہ ہمیں ایک بار پھر یہ سعادت بقلم خود نصیب ہو رہی ہے۔ تیشے بغیر مرنہ سکا کوہن اسد۔

یہ کتاب ‘چراغ تلے’ کے پورے آٹھ سال بعد شائع ہو رہی ہے۔ جن قدردانوں کو ہماری پہلی کتاب میں تازگی، زندہ دلی اور جواں سالی کا عکس نظر آیا، ممکن ہے، ان کو دوسری میں کہولت کے آثار دکھلائی دیں۔ اس کی وجہ ہمیں تو یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان کی عمر میں آٹھ سال کااضافہ ہوچکا ہے۔

انسان کو حیوان ظریف کہا گیا ہے۔ لیکن یہ حیوانوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ اس لے کے دیکھا جائے تو انسان صرف واحد حیوان ہے جو مصیبت پڑنے سے پہلے مایوس ہوجاتا ہے۔ انسان واحد جاندار ہے، جسے خلاق عالم نے اپنے حال پر رونے کے لیے غدود گریہ بخشے ہیں۔ کثرت استعمال سے یہ بڑھ جائیں تو حساس طنز نگار دنیا سے یوں خفا ہوجاتے ہیں جیسے اگلے وقتوں میں آقا نمک حرام لونڈیوں سے روٹھ جایا کرتے تھے۔ لغزش غیر پر انہیں ہنسی کے بجائے طیش آجاتا ہے۔ ذہین لوگوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو احمقوں کا وجوود سرے سے برداشت ہی نہیں کر سکتی۔ لیکن ، جیسا کہ مارکوئس دی سید نے کہا تھا، وہ بھول جاتے ہیں کہ سبھی انسان احمق ہوتے ہیں۔ موصوف نے تو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر تم واقعی کسی احمق کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے تو خود کو اپنے کمرے میں مقفّل کرلو اور آئینہ توڑکر پھینک دو۔

لیکن مزاح نگار کے لیے نصیحت، فصیحت اور فہمائش حرام ہیں۔ وہ اپنے اور تلخ حقائق کے درمیان ایک قدآدم دیوار قہقہ کھڑی کرلیتا ہے۔ وہ اپنا روئے خنداں، سورج مکھی پھول کی مانند، ہمیشہ سرچشمئہ نور کی جانب رکھتا ہے اور جب اس کا سورج ڈوب جاتا ہے تو اپنارخ اس سمت کرلیتا ہے، جدھر سے وہ پھر طلوع ہوگا۔

ہمہ آفتاب بینم، ہمہ آفتاب گویم

نہ شبنم، نہ شب پر ستم کہ حدیث خواب گویم

حس مزاح ہی اصل انسان کی چھٹی حس ہے۔ یہ ہو تو انسان ہر مقام سے آسان گزر جاتا ہے۔ وہ تومزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں بآسانی حل ہوجاتے ہیں، بالخوص اردو ادب میں۔ لیکن مزاح کے اپنے تقاضے، اپنے ادب آداب ہیں۔ شرط اول یہ کہ برہمی، بیزاری اور کدورت دل میں راہ پائے۔ ورنہ بومرنگ پلٹ کر خود شکاری کا کام تمام کردیتا ہے۔ مزا توجب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ’’یہ دھوآں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟‘‘ مزاح نگار اس وقت تک تبسم زیر لب کا سزا وار نہیں، جب تک اس نے دنیا اور اہل دنیا سے رج کے پیار نہ کیا ہو۔ ان سے، ان کی بے مہری وکمنگاہی سے۔ ان کی سرخوشی و ہوشیاری سے۔ان کی تردامنی اور تقدس سے۔ ایک پیمبر کے دامن پر پڑنے والا ہاتھ گستاخ ضرور ہے، مگر مشتاق وآرزومند بھی ہے۔ یہ زلیخا کا ہاتھ ہے۔ خواب کو چھوکردیکھنے والا ہاتھ۔

صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی

ایک صاحب طرز ادیب نے، جو سخن فہم ہونے کے علاوہ ہمارے طرفدار بھی ہیں (تجھے ہم ولی سمجھتے جونہ سود خوار ہوتا۔۔۔۔۔۔کی حد تک) ایک رسالے میں دبی زبان سے شکوہ کیا کہ ہماری شوخئی تحریر مسائل حاضرہ کے عکس اور سیاسی سوزوگداز سے عاری ہے۔ اپنی صفائی میں ہم مختصراً اتنا ہی عرض کریں گے کہ طعن وتشنیع سے اگر دوسروں کی اصلاح ہوجاتی تو بارود ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

لوگ کیوں، کب اور کیسے ہنستے ہیں، جس دن ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب معلوم ہوجائے گا، انسان ہنسنا چھوڑدے گا۔ رہا یہ سوال کہ کس پر ہنستے ہیں؟ تو اس کا انحصار حکومت کی تاب ورواداری پر ہے۔انگریز صرف ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔۔۔۔۔پنچ کے لطیفے، موسم، عورت، تجریدی آرٹ۔ اس کے برعکس، ہم لوگ ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو اب ہماری سمجھ میں آگئی ہیں۔ مثلاً انگریز،عشقیہ شاعری، روپیہ کمانے کی ترکیبیں، بنیادی جمہوریت۔

فقیر گالی، عورت کے تھپڑاور مسخرے کی بات سے آزوردہ نہیں ہونا چاہئیے۔ یہ قول فیصل ہمارا نہیں، مولانا عبید زاکانی کا ہے (ازدشنام گدایاں و سیلئی زناں وزبان شاعراں ومسخرگاں مرنجید) مزاح نگار اس لحاظ سے بھی فائدے میں رہتا ہے کہ ممکن ہے، اس میں بھی تفنّن کا کوئی لطیف پہلو پوشیدہ ہو، جو غالباً موسم کی خرابی کے سبب اس کی سمجھ نہیں آرہا۔ اس بنیادی حق سے دستبردار ہوئے بغیر، یہ تسلیم کرلینے میں چنداں مضائقہ نہیں کہ ہم زبان اور قواعد کی پابندی کو تکلّف زائد تصور نہیں کرتے۔ یہ اعتراف عجز اس لیے اور بھی ضروری ہے کہ آج کل بعض اہل قلم بڑی کوشش اور کاوش سے غلط زبان لکھ رہے ہیں۔ہاں کبھی کبھار بے دھیانی یا محض آلکس میں صحیح زبان لکھ جائیں تو اور بات ہے۔ بھول چوک کس سے نہیں ہوتی؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔