’سمجھا جانا ہی سب سے بڑا سکون ہے‘ نامور سنگھ کی ذاتی یادوں کا ایک سچا بیان

نامور سنگھ کے مطابق ان کی شادی کم عمری میں ہوئی اور وہ اسے قبول نہ کر سکے۔ دہلی آ کر کچھ قریبی لوگ ملے جنہوں نے ان کا ساتھ دیا۔ ان کے بھائی اور چند پرانے ساتھی انہیں اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے

<div class="paragraphs"><p>نامور سنگھ / سوشل میڈیا</p></div>

نامور سنگھ / سوشل میڈیا

user

نامور سنگھ

 میں ہائی اسکول میں، نویں جماعت کا طالب علم تھا، جب سخت بیمار پڑا۔ یہ غالباً 1944 کی بات ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد والد بھی بیمار ہو گئے، انہیں ہرنیا کی شکایت تھی۔ گاؤں میں جیسا علاج ہوتا ہے، ویسا ہی چل رہا تھا۔ انہی دنوں ان کا تبادلہ بھی ہو گیا، حالات خراب ہو گئے۔ خاندان نے طے کیا کہ میری شادی کر دی جائے۔ میں تعلیم جاری رکھنا چاہتا تھا اور چونکہ شہر کی فضا سے متاثر ہو چکا تھا، میں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا، ’’میں شادی نہیں کروں گا۔‘‘

والد کو یہ فکر تھی کہ اگر وہ مر گئے تو میری شادی نہ ہو پائے گی۔ اسی بے چینی میں انہوں نے میری شادی طے کر دی۔ میں گھر سے بھاگ نکلا مگر پکڑ کر واپس لایا گیا۔ ہائی اسکول کے امتحان ختم ہوتے ہی میری شادی کر دی گئی۔ یہ شادی بہار کے بارڈر پر واقع درگاوتی ندی کے کنارے بسا گاؤں مچکھیا میں انجام پائی۔ میری شادی ہو رہی تھی اور میں رو رہا تھا۔

کئی سال تک اس شادی کو دل سے قبول نہ کر سکا۔ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ 1945 میں شادی ہوئی، 1948 میں پہلا بیٹا پیدا ہوا اور بیس سال بعد 1968 میں ایک بیٹی ہوئی۔ والد نے میری مرضی کے خلاف شادی کرائی لیکن اس کا خمیازہ میری بیوی کو بھگتنا پڑا، یہ کبھی مناسب نہیں تھا۔ میں جانتا تھا اور آج بھی مانتا ہوں، مگر جانے کیوں دل میں ایک ایسی گرہ تھی کہ میں اپنی بیوی کو شوہر کا پیار نہ دے سکا۔ وجہ جو بھی ہو، میں تجزیہ نہیں کرتا لیکن یہ دکھ ہمیشہ رہے گا کہ اتنا کچھ پڑھنے، لکھنے اور سمجھنے کے باوجود، میں اپنی بیوی کو خوشی نہ دے سکا۔

میں روایتی خاندان کا فرد تو نہ بن سکا لیکن ایک اور طرح کا خاندان مجھے سہارا دیتا رہا، دوستوں کا خاندان۔ دہلی ایک اجنبی شہر ہے، خاص طور پر پورب کے (مشرقی) لوگوں کے لیے۔ میں 1965 میں دہلی آیا اور کرایے کے مکان میں رہنے لگا۔ کچھ پرانے رشتے قائم تھے، کچھ نئے بنے۔ ان میں ایک تھا راجندر اور منّو کا خاندان۔ میں ماڈل ٹاؤن میں رہتا تھا، وہ شکتی نگر میں۔ ان کے یہاں اپنائیت ملتی تھی۔


میں دو خاص شخصیات کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا۔ ایک ہیں میرے پرانے ہم جماعت مارکنڈے سنگھ، جو اعظم گڑھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ دہلی میں آئی پی ایس افسر رہے۔ ان سے میرا تعلق بہت قریبی تھا۔ وہ مال روڈ کے سامنے رہتے تھے۔ ان کا گھر میرے لیے بھی جیسے اپنا گھر تھا۔ میں شام کو اکثر وہیں جاتا، چھٹی کے دن دو دو بار بھی۔ آج بھی ہمارے تعلقات ویسے ہی قائم ہیں۔ وہ علم دوست اور مارکسی فکر کے مطالعے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ بعد میں انہوں نے تَنتَر کی طرف توجہ دی۔

ایک دوسرا گھر ڈاکٹر نرملا جین کا تھا۔ وہ دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں اور ادب سے وابستہ تھیں۔ ان سے تعارف میرے دوست بھارت بھوشن اور بندو جی کے ذریعے ہوا۔ وہ بہت معاملہ فہم اور عملی مزاج کی خاتون تھیں۔ زندگی میں جب بھی کوئی عملی مسئلہ آیا، نرملا جی مددگار ثابت ہوئیں۔

ایسے اور بھی کئی خاندان تھے، جیسے دیوی شنکر اوستھی، اجیت کمار اور وشوناتھ تریپاٹھی کے گھرانے۔ ان سب نے مجھے خاندان کی طرح اپنایا۔ اگر دہلی میں یہ رشتے نہ بنتے، تو میں بھی ان آوارہ مزاج لوگوں کی صف میں شامل ہو جاتا، جیسے اکثر لوگ دہلی آ کر ہو جاتے ہیں۔

ان میں سب سے نمایاں خاندان تھا شیلا سندھو اور ان کے شوہر ہر دیو سندھو کا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھے۔ ان سے تعلق پہلے مصنف-پبلشر کے طور پر قائم ہوا، مگر جلد ہی وہ رشتہ خاندانی بن گیا۔ شیلا جی ایک روشن خیال، پڑھی لکھی، ادب نواز خاتون تھیں۔ ان کے گھر شام کی محفلیں لگتی تھیں، جن میں راجندر، منّو، نرملا جی، بھارت جی، کرشنا سوبتی جیسے ادیب شریک ہوتے۔


جب میرا اپینڈکس کا آپریشن ہوا، تو شیلا جی نے مجھے اپنے گھر لا کر تیمارداری کی۔ میں یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا۔ شاید موقع نہ ملا اس کا ذکر کرنے کا، مگر آج جب میں زندگی کے آخری موڑ پر ہوں، تو چاہتا ہوں کہ سب احسانوں کا شکریہ ادا کروں۔

ایک سنسکرت کا شلوک یاد آتا ہے، جس کا ترجمہ ہے: ’’نہ کچھ کیے ہوئے بھی، صرف سکھ پہنچا کر، کوئی شخص دکھ کو کم کر دے — وہی سب سے قیمتی ہوتا ہے۔‘‘

ایسے دوست زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہوتے ہیں۔ ہمارے جتنے بھی دوست تھے، ان سے کبھی کبھی جھگڑے بھی ہوتے رہتے تھے، غلط فہمیاں بھی ہو جاتی تھیں۔ راجندر یادو کو تو میری بیٹی ’دشمن’ کے لقب سے جانتی تھی! لیکن یہ ویسا ہی دشمن تھا، جیسے اشک نے کہا تھا، ’منٹو میرا دشمن‘۔ البتہ راجندر، منٹو نہیں ہیں — اور ظاہر ہے اشک ہونا بھی میرے لیے کوئی قابلِ رشک بات نہیں۔ خیر، یہ سب چلتا رہتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ میں خود کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ جیسے اچھے بھائی مجھے ملے، ویسے ہی سچے دوست بھی۔

اسی موقع پر میں دو ایسے دوستوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ادب کے میدان سے نہیں تھے، مگر وہ مجھے مجھ سے بھی زیادہ جانتے اور سمجھتے ہیں۔ایک ہیں ایڈووکیٹ ناگیندر پرساد سنگھ، بنارس کے رہنے والے۔ یہ میرے پانچویں جماعت کے ہم جماعت تھے۔ وہ اکیلے شخص ہیں جو مجھے ڈانٹ سکتے ہیں اور میں خاموشی سے سن لیتا ہوں۔ وہ میری سخت سے سخت تنقید کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ میرے مداح نہیں ہیں۔ وہ مجھے ’تم‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، بلکہ صرف ’نامور‘ کہہ کر بلاتے ہیں، ’سنگھ‘ کبھی نہیں کہتے۔ ایسے ہی دوسرے شخص ہیں مارکنڈے سنگھ، ہم انہیں بھی صرف مارکنڈے کہتے ہیں۔ وہ سابق لیفٹیننٹ گورنر رہ چکے ہیں۔ وکیل صاحب (ناگیندر پرساد) سے میں مہینوں نہیں مل پاتا، وہ بنارس میں ہوتے ہیں، میں دہلی میں لیکن جب کبھی ملاقات ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے کل ہی شام کو ملے ہوں۔

اسی طرح میرے خاندان میں بھی ایک شخص ہے، میرا بھائی کاشی ناتھ۔ وہ ان دونوں دوستوں سے بھی زیادہ مجھے سمجھتا ہے اور میری ذات کو اندر باہر سے پہچانتا ہے۔ اس نے مجھے بہت قریب سے جانا ہے اور وہ اکثر میری بہت سی غلطیوں کو، بغیر کچھ کہے، معاف بھی کر دیتا ہے۔


میں نے کبھی اپنے استاد، ہزاری پرساد دویدی سے پوچھا تھا، ’سب سے بڑا دکھ کیا ہے؟‘ وہ بولے، ’نہ سمجھا جانا۔‘ میں نے پوچھا، ’اور سب سے بڑی خوشی؟‘ وہ بولے، ’اس کا بالکل اُلٹ، سمجھا جانا!‘

اگر لگے کہ ساری دنیا تمہیں غلط سمجھ رہی ہے لیکن کم از کم ایک شخص ایسا ہے جس کے بارے میں تمہیں یقین ہے کہ وہ تمہیں سمجھتا ہے، تو پھر تمہیں کسی اور چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ اسی لحاظ سے میں بہت پُر سکون اور مطمئن ہوں، کیونکہ ایک ایسا شخص ہے جو میرا قریبی ہے اور اتفاق سے میرا بھائی ہے اور وہ مجھے پوری طرح جانتا ہے۔

(مضمون نگار نامور سنگھ (1926–2019) ہندی زبان کے ممتاز ادیب، نقاد اور دانشور تھے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔