’توحید کا تصور اسلام اور سکھ مت میں نقطۂ اشتراک‘، گرونانک کے یوم ولادت پر بازگشت کا پروگرام

جلسے کے مہمانِ خصوصی افسانہ نگارملکیت سنگھ مچھانا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نظیر اکبرآبادی نے اپنی نظم میں گرو نانک کی سیرت و شخصیت اور تعلیمات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔

قومی آواز گرافکس
قومی آواز گرافکس
user

پریس ریلیز

حیدرآباد: ’’توحید کا تصور اسلام اور سکھ مت میں نقطۂ اشتراک ہے۔ دنیا کے پانچویں بڑے مذہب سکھ مت کے بانی گرو نانک نے ہمیشہ خدا کا ذکر کرنے، محنت اور حلال کی کمائی کھانے، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنے اور ان کے ساتھ کسی قسم کا بھید بھاو نہ کرنے کی تلقین کی۔ قرآن میں بھی یہی تعلیمات دی گئی ہیں۔ دنیا کا ہر مذہب انسان کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔ آج ہم جب ان تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں تو پوری دنیا انتشار و خلفشار کا شکار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر دنیا میں امن و اشتی بحال کی جائے۔‘‘ ان خیالات کا اظہار پروفیسرمحمد نسیم الدین فریس، ڈین اسکول براے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات اور صدر شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی نے ’’بازگشت‘‘ کی جانب سے گرونانک جینتی کے موقعے پر نظیر اکبرآبادی کی نظم ’’گرونانک شاہ جی‘‘ کی پیش کش اور گفتگو پر مبنی گوگل میٹ پر منعقدہ پروگرام میں کیا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ممتاز مستشرق اور ہندوستانی انگلش ڈکشنری کے مرتب ایس ڈبلیو فیلن نے کہا تھا کہ’ ہندوستان میں کوئی شاعر ہے تو وہ نظیر ہیں۔‘ نظیر آٹھ زبانیں جانتے تھے۔ توکل ان کے مزاج کا خاصہ تھا۔ انھوں نے پوری زندگی درویشی میں گزاری۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے پروفیسر آغا حیدر حسن کے کتب خانے میں نظیر کے دو دیوان تلاش کیے اور 1932 میں شائع کیا۔

جلسے کے مہمانِ خصوصی افسانہ نگار ملکیت سنگھ مچھانا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نظیر اکبرآبادی نے اپنی نظم میں گرو نانک کی سیرت و شخصیت اور تعلیمات کا نچوڑ پیش کردیا ہے۔ گرونانک نے ایک ایسے دور میں انسانیت کا درس دیا جب ہر طرف افراتفری اور ظلم و بربریت کا بازار گرم تھا۔ انھوں نے محبت، ہمدردی، عدل، مساوات، رواداری اور ایمانداری کی تعلیم دی۔ صدیوں سے چھوا چھوت اور پسماندگی کے شکار طبقات کو انھوں نے برابری کا درجہ دیا۔ مسلمانوں کی طرح انھوں نے سکھوں کو بھی پانچ وقت خدا کی عبادت کی تلقین کی۔ لنگر کے ذریعے غربا و مساکین کو کھانا کھلانے کی روایت کا آغاز بابا نانک نے ہی کیا۔ افسانہ نگار و شاعر ڈاکٹر محمد مستمر (سہارن پور، یوپی) نے نہایت دلکش انداز میں نظم ’’گرونانک شاہ ‘‘ کی پیش کش کی۔ ڈاکٹر مشرف علی، استاد شعبہ اردو، بنارس ہندو یونیورسٹی نے کہا کہ نظیر کی نظموں کے بعض مصرعے ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ انھوں نے ایک ایسے دور میں نظم کو اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا ذریعہ بنایا جب ہر طرف غزل کی دھوم تھی۔ ڈاکٹر ریشماں پروین استاد کھن کھن جی کالج، لکھنؤ نے بھی اس موقعے پر اظہار خیال کیا۔


ابتدا میں پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر فیروز عالم، استاد شعبۂ اردو، مانو نے کہا کہ نظیر اکبرآبادی کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اردو کے سخت گیر نقاد کلیم الدین احمد نے انھیں اردو شاعری کے آسمان پر تنہا درخشاں ستارہ قرار دیا۔ نظیر ایک عوامی شاعر تھے اور انھوں نے عوام خصوصاً غریب اور نادار افراد کا دکھ درد اپنی نظموں میں پیش کیا۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ 1740 میں دہلی میں پیدا ہوئے لیکن ان کی پوری زندگی آگرے میں گزری۔ وہ عوام سے بے حد قریب تھے اور مختلف پیشہ وروں کی فرمائش پر ان کے لیے نظمیں کہا کرتے تھے۔ وہ ایک زود گو شاعر تھے۔ فارسی میں ایک اور اردو میں ان کے کلام کے دو دیوان ان کی یادگار ہیں۔ آگرے میں ہی 1830 میں ان کی وفات ہوئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */