جون ایلیا: محبوب سے براہ راست مخاطب ہونے والا شاعر

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تنویر احمد

’’اپنی شاعری کاجتنا منکر میں ہوں، اتنا منکر میرا کوئی بدترین دشمن بھی نہ ہوگا۔ کبھی کبھی تومجھے اپنی شاعری بری، بے تکی لگتی ہے... اس لیے اب تک میرا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا... اور جب تک خدا ہی شائع نہیں کرائے گا اس وقت تک شائع ہوگا بھی نہیں۔‘‘

یہ سطور عالمی شہرت یافتہ اور اپنی مختلف طرز شاعری کے لیے پہچانے جانے والے شاعر جون ایلیا کے ہیں۔ جون ایلیا، یعنی ایک ایسا شاعر جس نے دنیا کو شاعری کے ایک نئے ڈھنگ سے روشناس کرایا اور لفظوں کو ایک نیا پیراہن عطا کر کے لوگوں کو حیران کر دیا۔ لیکن جیسا کہ جون ایلیا نے اوپر دیے گئے سطور میں کہا ہے، وہ اپنی شاعری کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ ایسا میں اس لیے بھی کہہ سکتا ہوں کہ جس نے محض 8 سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی اور پھر عنفوان شباب میں مشاعرے لوٹتے رہے، ان کا پہلا شعری مجموعہ ’شاید‘ 1990 میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ جب یہ مجموعہ قارئین کے ہاتھوں میں پہنچا اس وقت ان کی عمر تقریباً 60 برس تھی۔ اس سلسلے میں ’شاید‘ کے اداریہ بعنوان ’نیازمندانہ‘ میں جون ایلیا نے خود لکھا ہے کہ ’’یہ میرا پہلا مجموعۂ کلام یا شاید پہلا اعتراف شکست ہے جو انتیس تیس برس کی تاخیر سے شائع ہو رہا ہے۔ یہ ایک ناکام آدمی کی شاعری ہے۔ یہ کہنے میں بھلا کیا شرمانا کہ میں رائیگاں گیا۔‘‘

31 دسمبر 1931 کو اتر پردیش کے امروہہ میں پیدا ہوئے جون ایلیا نے ایک علمی و ادبی خاندان پایا تھا اور والد شفیق حسن ایلیا کی سرپرستی میں لسانیات کی باریکیوں کو سمجھا۔ چونکہ علامہ شفیق حسن خود عربی، فارسی و عبرانی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے، ان کا اثر جون ایلیا پر بھی پڑا۔ عربی کی تعلیم تو انھوں نے باضابطہ دیوبند سے بھی حاصل کی اور ’کتاب التواسین‘ جیسی عربی کی متعدد کتابوں کے تراجم کی اشاعت کا اعلان بھی کیا تھا لیکن وہ بھی جون ایلیا کے بیشتر شعری مجموعوں، مثلاً ’یعنی‘، ’گویا‘، ’لیکن‘ وغیرہ کی طرح ان کی وفات کے بعد ہی شائع ہوئے۔ پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے جون ایلیا کے بارے میں ان کے نزدیکی رشتہ دار سعید ممتاز کہتے ہیں کہ ’’جون کی لسانیات میں کافی دلچسپی تھی۔ مدرسہ میں عربی و فارسی سیکھنے کے بعد انگریزی پر عبور حاصل کیا اور پھر ہبرو و سنسکرت پر بھی اپنی گرفت مضبوط کر لی۔‘‘

جون ایلیا کی شاعری سے متعلق ایک بات جسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ یہ ہے کہ انھوں نے ترقی پسند، جدیدیت اور وجودیت جیسی تحریکوں سے وابستہ شاعروں کی اس روش سے خود کو الگ کیا جس میں ذات و کائنات کے مسائل حاوی ہوتے تھے۔ انھوں نے میر و مومن کے بعد ایک بار پھر عشق و محبت جیسے موضوعات کو شاعری کا عنصر بنایا اور غم ہجراں، وصال اور درد و الم سے شرابور نظمیں، غزلیں و قطعات صفحہ قرطاس پر اتار دیے۔ کچھ اشعار آپ بھی دیکھیے:

وصل کے سلسلے تو کیا اب تو

ہجر کے سلسلے ہیں بے معنی

کوئی رشتہ ہی جب کسی سے نہیں

دل کے سارے گلے ہیں بے معنی

---

اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر

کاش اس زباں دراز کا منھ نوچ لے کوئی

روایتی اردو شاعری کی زمین پر سانسیں لیتے ہوئے بھی جون ایلیا ہمیشہ مثالی زندگی کے متلاشی رہے۔ لیکن اصل زندگی میں اخلاقیات کہاں دیکھنے کو ملتے ہیں، اس میں تو مکاری اور نمائش کا عنصر بھرا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں بہت ناراض اور جھنجھلائے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ جب یہ ناراضگی اور جھنجھلاہٹ ان کی شاعری کا حصہ بنتی ہے تو وہ کلاسیکی عشقیہ شاعری نہ ہو کر زمین پر سانس لیتے ہوئے مرد و عورت کی محبت و نفرت کی شاعری بن جاتی ہے۔ اس طرح کی شاعری جون ایلیا کے یہاں خوب ملتی ہیں اور ان کی اصل پہچان بھی یہی بن گئی ہیں، مثلاً:

دل جو ہے آگ لگا دوں اس کو

اور پھر خود ہی ہوا دوں اس کو

---

مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ

مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا؟

جون ایلیا کی شاعری کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اپنے محبوب سے براہ راست مخاطب ہونا پسند کرتے تھے۔ انھوں نے دوسرے شاعروں کی طرح بادلوں، ہواؤں اور پھول و خوشبو کو ذریعہ خطابت بنانے سے پرہیز کیا۔ تلخ حالات ہوں اور اپنی طبیعت و احساس کا اظہار کرنا ہو ، تو انھوں نے اپنے محبوب کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھ کر بات کی اور وہ بھی بالکل مختلف انداز میں۔ چند مثالیں دیکھیے:

بن تمھارے کبھی نہیں آئی

کیا مری نیند بھی تمھاری ہے

---

عہد رفاقت ٹھیک ہے لیکن، مجھ کو ایسا لگتا ہے

تم تو میرے ساتھ رہو گی، میں تنہا رہ جاؤں گا

---

بہت دل کشادہ کر لیا کیا

زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا

تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی

تو خود اپنے کو آدھا کر لیا کیا

---

شگوفگی کی تری یاد جو دلاتے ہیں

میں ایسے سارے ہی پودے اُکھاڑ ڈالوں گا

جون ایلیا (تصویر سوشل میڈیا)
جون ایلیا (تصویر سوشل میڈیا)

جون ایلیا کے دل کا درد و کرب اس وقت بہت زیادہ بڑھ گیا تھا جب 1984 میں ان کا اپنی بیگم یعنی معروف کالم نگار زاہدہ حنا سے رشتہ منقطع ہو گیا۔ پہلے سے ہی وہ پوری دنیا سے خفا اور ناراض معلوم ہوتے تھے لیکن زاہدہ حنا سے طلاق کے بعد وہ بالکل ٹوٹ گئے اور ڈپریشن کے بھی شکار ہوئے۔ شراب کے عادی تو پہلے سے ہی تھے لیکن طلاق کے بعد وہ خود کو برباد کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے اور شراب نوشی کی انتہا کر دی تھی۔ شاید اس بات کا احساس ان کو بھی تھا تبھی تو انھوں نے یہ شعر لکھا:

تم نے بہت شراب پی، اس کا سبھی کو دُکھ ہے جونؔ
اور جو دُکھ ہے وہ یہ ہے، تم کو شراب پی گئی

غالباً زاہدہ حنا کی جدائی کا غم ہی تھا جس نے ان کی آخری زندگی میں شاعری کو دوام حاصل کیا۔ انھوں نے غزلوں کے ساتھ بے شمار ایسی نظمیں لکھیں جن میں جدائی کا غم پوری طرح اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ جون ایلیا کے پہلے مجموعہ ’شاید‘ میں شامل ان کی پہلی نظم جو کہ ’شاید‘ کے ہی عنوان سے ہے، اس کے آخری بند میں انھوں نے کچھ اس طرح لکھا ہے کہ اس کا احساس ہر وہ عاشق کر سکتا ہے جس نے محبوب سے جدائی کا درد برداشت کیا ہو:

تمہارے اس طرح ہر لمحہ یاد آنے سے

دل سہما ہوا سا ہے

تو پھر تم کم ہی یاد آؤ

متاعِ دل، متاعِ جاں تو پھر تم کم ہی یاد آؤ

بہت کچھ بہہ گیا ہے سیل ماہ و سال میں اب تک

سبھی کچھ تو نہ بہہ جائے

کہ میرے پاس رہ بھی کیا گیا ہے

کچھ تو رہ جائے

اپنی زندگی میں ہی بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکے جون ایلیا کو ان کی زندگی کے بعد زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس میں ان کے خاص دوست خالد احمد انصاری کا اہم مقام ہے کیونکہ 8 نومبر 2002 میں جب جون کا انتقال ہوا تھا اس وقت ان کا محض ایک شعری مجموعہ یعنی ’شاید‘ ہی منظر عام پر آیا تھا، بعد ازاں ’یعنی‘ 2003 میں اشاعت پذیر ہوا جس کی ترتیب جون ایلیا نے خود کی تھی لیکن شائع نہیں کرا پائے تھے۔ اس کے بعد کئی شعری مجموعے خالد احمد انصاری کی کوششوں سے منظر عام پر آئے اور جون ایلیا پوری دنیا میں چھا گئے۔ مشاعروں میں شرکت کرنے کی وجہ سے شروع میں لوگ انھیں صرف غزلوں کا شاعر تصور کرتے تھے لیکن وہ نظموں اور قطعات کے شاعر بھی ہیں، اس کا اندازہ لوگوں کو ان کے شعری مجموعوں کی اشاعت کے بعد ہوا۔ ان کا ایک قطعہ جو ان کی الگ طرز شاعری کی بہترین مثال پیش کرتا ہے، آپ بھی دیکھیں:

شرم، دہشت، جھجک، پریشانی

ناز سے کام کیوں نہیں لیتی

آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے

تم میرا نام کیوں نہیں لیتی

آج جون ایلیا کے اس دارفانی سے وداع ہوئے 15 سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن اپنی شاعری کے ذریعہ وہ ہمارے درمیان زندہ ہیں۔ ایسے موقع پر جون ایلیا کا وہ نوحہ یاد آتا ہے جو انھوں نے اپنے دوست جاوید معنی کی وفات پر تحریر کیا تھا۔ جون ایلیا کے شیدائیوں کے لیے بھی آج نوحہ خوانی کا دن ہی ہے اس لیے پیش خدمت ہے مذکورہ نوحہ کے دو اشعار:

ہم سے بے واسطہ نہیں ہے وہ

وہ یہیں تھا یہیں کہیں ہے وہ

کر گیا ہے وہ رَم کسی جانب

اک غزالِ غزل زمیں ہے وہ

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Nov 2017, 7:58 PM
/* */