جوش ملیح آبادی کے یوم پیدائش پر خاص: ’یادگار کرسی‘ جو کباڑے میں چلی گئی

مشہور رسالہ ’آج کل‘ کے دفتر میں کئی دہائیوں سے رکھی جوش ملیح آبادی کی یادگار کرسی جس پر وہ اپنی ادارت کے زمانے میں متمکن رہتے تھے، لاک ڈاؤن میں صفائی کے دوران کباڑے میں چلی گئی۔

جوش ملیح آبادی اور ان کی یادگار کرسی
جوش ملیح آبادی اور ان کی یادگار کرسی
user

محمد تسلیم

نئی دہلی: شاعر انقلاب جوش ؔ ملیح آبادی ایک ایسا نام جس نے اپنے قلم کے ذریعہ ہندوستانی عوام کے ذہنوں کو جلا بخشی اور آزادیٔ ہند کی لڑائی میں خوابیدہ لوگوں کو بیدار کیا، تاہم خود بھی آزادی کی لڑائی میں ہمہ وقت پیش پیش رہے۔ جوشؔ ملیح آبادی کی ولادت 5 دسمبر1898 کو اتر پردیش کے ملیح آباد کے ایک معزز اور علمی گھرانے میں ہوئی۔ ان کا اصل نام شبیر حسین خاں تھا اور تخلص جوش ؔ۔جوشؔ تقسیم ہند کے کچھ برس بعد ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے تھے اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ 22 فروری 1982 کو اسلام آباد میں ان کا انتقال ہوا۔

جوش ؔ کا وصف یہ ہے کہ وہ جہاں بھی رہے مسلسل لکھتے رہے۔ جوش ملیح آبادی متعدد خوبیوں کے مالک تھے وہ شاعر بھی تھے، مجاہد آزادی بھی، اچھے نثر نگار بھی، مدیر بھی، نغمہ نگار بھی اور بہت اچھے صحافی بھی۔ جوش ؔ ملیح آبادی 1948 میں رسالہ ’آج کل‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور 1955 تک اس رسالہ سے جڑے رہے۔ آج بھی یہ رسالہ مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ اس مقبول رسالہ کو قارئین اس شوخ سے بھی پڑھتے ہیں کہ اس کے ایڈیٹر جوش ؔملیح آبادی تھے۔


نئی دہلی میں واقع ”سوچنا بھون“ کے کمرہ نمبر 56 میں جوش ؔ کی ایک اہم یاد گار کرسی جو کئی دہائیوں سے وہاں موجود تھی، جس پر بیٹھ کر جوش ؔملیح آبادی اپنی ادارت کے زمانے میں متمکن رہتے تھے، وہ کر سی لاک ڈاؤن میں صفائی کے دوران کباڑے میں چلی گئی ہے۔ یہ امر اس قدر افسوسناک ہے کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ قومی آواز کے نمائندہ نے خود رسالہ ’آج کل‘ کے دفتر پہنچ کر اس معاملہ کی تحقیق کی۔’آج کل‘ کے ایڈیٹر حسن ضیاء نے جوش ؔ کی کرسی کے متعلق تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی کر سی کئی دہائیوں سے دفتر میں موجود تھی۔ طلباء، ریسرچ اسکالر، محبان ِاردو، تاہم جو بھی دفتر تشریف لاتا تھا وہ جوش ؔ صاحب کی کرسی کو ضرور دیکھنا پسند کر تا تھا۔ متعدد افراد نے ان کی کرسی پر اپنے احساسات و جذبات کا اظہار بھی کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عابد ؔ کر ہانی نے تو جوشؔ کی کرسی پر نظم قلم بند کی ہے جس کا عنوان ہے ’ایک مکالمہ جوش ؔ ملیح آبادی کی کرسی سے‘۔ یہ نظم ’آج کل‘ میں فروری 1993 میں شائع ہوئی تھی۔مضمون کے آخر میں یہ نظم پیش کیا گیا ہے، قارئین اسے پڑھ سکتے ہیں۔

بہر حال، حسن ضیاء نے بتایا کہ عالمی وباء کورونا وائرس کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن کے دوران دفتر کے سارے کام گھر سے ہی ہورہے تھے، اسی دوران دفتر میں موجود پُرانے فرنیچر س، کرسیاں و دیگر سازو سامان کو ہٹا دیا گیا تھا جس میں جوش ؔ ملیح آبادی صاحب کی کر سی بھی شامل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کر سی اچھی حالت میں موجود ہے لیکن اس کرسی کی بنائی خراب ہو رہی تھی اس لئے وہ زیادہ ہی پرانی دکھائی دینے لگی تھی۔


اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے حسن ضیاء نے بتایا کہ ہماری غیر موجود گی میں وہ کرسی کباڑے کے سامان کے ساتھ چلی گئی ہے۔ وہ کرسی دراصل اسٹور روم میں پہنچادی گئی ہے۔ نمائندہ نے سوال کیا کہ اگر جوشؔ ملیح آبادی کی کرسی دفتر کے اسٹور روم میں ہے تو وہ ابھی تک کمرہ میں کیوں نہیں رکھی گئی؟ اس سوال پر حسن ضیاء تھوڑے خاموش سے نظر آئے اور یقین دہانی کرائی کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جوش ؔ ملیح آبادی کی وہ یاد گار کر سی دوبارہ دفتر میں رکھی جائے۔کب تک وہ یاد گار کُرسی دفتر میں دوبارہ رکھی جائیگی کچھ پتہ نہیں ہے۔

گفتگو کے دوران یہ واضح نہیں ہو پایا کہ واقعی کرسی اسٹور روم میں ہی ہے یا کباڑ میں کسی دوسری جگہ چلی گئی ہے۔ اخیر میں انہوں نے جوشؔ ملیح آبادی کی پرانی فائل اور کچھ کاغذات بھی دکھائے۔


عابد کرہانی کی نظم ’ایک مکالمہ جوش ؔ ملیح آبادی کی کُرسی سے‘:

جوش ؔ کی کرسی جو رکھی ہے میرے بازو میں

اُس نے کل مجھ سے کہا:

میری وراثت کے امیں!

تجھ کو معلوم نہیں

چھوڑ کر جب سے گیا مجھ کو مِرا صدرنشیں

یونہی غم دیدہ و نم دیدہ غم ناک و حزیں

ہوں پڑی تب سے یہیں!

لوگ آتے ہیں چلے جاتے ہیں اس کمرے سے

میرے ہونے کا کسی کو نہیں ہوتا احساس

کہ اگر ہوتا، مِرے حال پہ روتا احساس!

ٹھیک ہے میرے ہی مالک نے مجھے چھوڑا دیا

میرا دل تو ڑ دیا ملک کا دل توڑ دیا

پار سرحد کے خیالات کا رُخ موڑ دیا

ہاں مگر یاد مرے دل میں ہے باقی اس کی

وہ مِرا صدر نشیں!

”کام تو اس کا تغیر تھا ”مگر ”نام شباب

”انقلاب“ ایک نعرہ تھا اس کا

صیح تو اس کی مقدس تھی مگر شام خراب

کہ شراب، اور شراب، اور شراب اورشراب!

جب مِرے ذہن میں آتی ہے وہ یادوں کی برات

اس کی وہ شعلہ نوائی وہ گُل افشانی نطق

اُف وہ الفاظ کا اک سیِل رواں

جس کو تسخیر نہ کر پائے کوئی:

اس کے معنی کا جہاں

وہ تشخص، وہ تحمل، وہ وجاہت، وہ چشم

وہ تبسم، وہ تکلم، وہ عنایت، وہ کرم

ابھی شعلہ، ابھی شبنم، ابھی تیز، اب مدھم

اس کی نے میں تھی بسی صرف خوشی کی سرگم

اُس کے انفاس میں بجتی ہوئی پائل ہردم

جس پہ سو طبل فدا، لفظوں کا وہ زیر و بم

تھا لُغت ہی میں نہیں اس کے کوئی لفظِ غم

ہائے وہ اس کا قلم

کیا طلسمات رقم!

وہ مِرا صدر نشیں اور وہ اس کا دربار

شاعر و ناقدو نثار، وہ باتیں، اشعار

وہ زمیں اور وہ فرش

وہ ہری چند، یگانہ، وہ مجاز

اور وہ اردو کا کاز

اس کے وہ ”حرف و حکایت“ وہ لطیفے، فقر ے

قہقہہ زار محافل، وہ خصوصی جلسے

یاد آتے ہیں تو خوں مجھ کو رُلاتے ہیں

ایسے لوگ آتے ہیں آخر تو کہا ں جاتے ہیں؟

خیر جانے بھی دو یادو ں کی برات

شاخِ آہو ہی پہ ٹھہری تو ٹھہر جانے دو یادوں کی برات

وہ مِرا صدر نشیں!

نہ رہا، اور مجھ کب رہتا ہے

اے وراثت کے امیں!

آج جب لمس ترے ہاتھوں کا میں نے پایا

دل تو پھر دل ہے، یو نہی بھر آیا

اور میں بول پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو نہی خاموش ہوئی جوشؔکی کرسی عابدؔ

میں نے یہ اس سے کہا:

”میں کہاں اور کہاں وہ خاتمِ شعری کانگیں

وہ تراصدر نشیں!

خاور ِ علم تھا وہ اور میں اک ذرہ ہوں

ہاں مگراس کی وراثت کا میں ایک حصہ ہوں

وہ وراثت جو ترے ہاتھ ملی ہے مجھ کو

(تیری ہر بات میں اک بات ملی ہے مجھ کو)

مرگیا وہ،پہ ہمیں

اس وراثت کا امیں بن کے ابھی رہنا ہے

”آج کل“ کو، تجھے ہر ایک صدی رہنا ہے

جوشؔ اُردو کو یونہی ابدی رہنا ہے!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Dec 2020, 7:11 AM