’مر كے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے‘



تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

رعنا صفوی

’’بھائی صاحب یہاں پر شیخ ابراہیم ذوق کی قبر کہاں ملے گی؟‘‘ یہ سوال میں نے ایک صاحب سے پہاڑ گنج کی گلیوں میں پوچھا۔ اس شریف شخص نے بہت ہی آہستہ سے دبی زبان میں کہا ’’کوڑے کٹّے کے بغل میں۔‘‘ وہاں سے کوڑے کٹے کو پوچھتی ہوئی پہاڑ گنج کے نبی کریم محلے کی تنگ اور گندی گلیوں سے گزرتی ہوئی میں اس مقام پر پہنچی جہاں ’خاقانئ ہند‘ کی کبھی قبر ہوا کرتی تھی۔ نہ جانے کس وقت اس جگہ پرعام آدمیوں کےلیے ایک بیت الخلا بنا دیا گیا۔

شاید ذوق کے چاہنے والوں کےلیے یہ جگہ ہمیشہ کےلیے کھو گئی ہو تی اگر فیروز بخت احمد نے اس کے خلاف جنگ نہ شروع کی ہوتی۔ فیروز بخت احمد صاحب نے PILعرضیاں نہ داخل کی ہوتیں اور اخباروں میں قبر کے مقام پر بیت الخلا بنانے والے میونسپل افسران کے خلاف مضمون نہ شائع کرائے ہوتے تواس قبر کا نام و نشان مٹ جاتا۔ اس کارے خیر میں ان کا ساتھ ایم سی مہتا نے دیا۔

1996 میں ایم سی مہتا نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے نام سپریم کورٹ میں ایک PIL داخل کی جس میں انھوں نے فیروز بخت احمد صاحب کے مضموں کا حوالہ دیتے ہوئےپوچھا کہ ذوق کی قبر کہاں ہے؟اس کے بعد عدالت نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں احمد صاحب بھی ممبر تھے اور ذوق صاحب کی قبر کے نشانات ڈھونڈنے کا حکم دیا گیا۔ اصل قبر تو نہیں ملی لیکن بیت الخلا وہاں سے ہٹا دیا گیا اور ایک چار دیواری کھینچ کر یادگارِ ذوق بنادیا گیا۔ وہاں پر نشانی کے طور پر ایک پتھر کا تابوت بنا دیا گیا اور چاروں دیوار وں پر محرابیں بناکر ان کے چند اشعارکا کتبہ لگا دیا گیا۔آج اس کی حالت اتنی خراب تو نہیں ہے مگر دروازے پر تالا لگا رہتا ہے اور یادگار پر ایک ویرانی سی چھائی رہتی ہے۔

شیخ ابراہیم ذوق ( 1790-1854) کے والد فوج میں ایک سپاہی تھے، اس کے باوجود ان کے حالات بہت معمولی تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ درجہ کی تعلیم دلوائی۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو حافظ غلام رسول کے مدرسے میں بھیجا۔حافظ صاحب ایک شاعر تھے جن کا تخلص’ شوق‘ تھا اور ان کے مدرسے میں شعر و شاعری کا اکثر تذکرہ ہوا کرتا تھا۔اس ماحول کا اثر ننھے ابراہیم پر ہوا اور ان کے دل میں شاعری کا شوق جاگ اٹھا۔ وہ حافظ صاحب کی شاگردی میں آئے اور ان کے کہنے پر اپنا تخلص ذوق رکھا۔ بعد میں وہ شاہ نصیر کے شاگرد بنے اور ان سے اپنی غزلوں پر اصلاح لینے لگے۔

وہ اپنے حالات سے پریشان تھے اور اپنے لیے ایک سرپرست ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ اپنی غزلیں مشاعرہ میں پڑھنا چاہ رہے تھے لیکن کسی نے ان کی مددنہیں کی ۔ اسی سوچ میں ڈوبے ہوئے وہ جامع مسجد پہنچے جہاں انہیں میر کالو حقیرؔ ملے۔ میر صاحب سے وہ پہلے ایک مشاعرہ میں مل چکے تھے ۔ میر صاحب نے ان سے اپنی غزل پڑھنے کو کہا اور یہ بھی كہا وہ سب سنبھال لیں گے۔

ذوق کی غزل بہت پسند کی گئی اور وہ مشاعرہ میں اپنی بغیر اصلاح کی ہوئی غزلیں پڑھنے لگے۔ ان کی شہرت مغل ولی عہد ابو ظفر سراج الدین تک پہنچی جو خود ایک شاعر تھے ۔ ان کے استاد شاہ نصیر اس زمانے میں دکن چلے گئے تھے اور ابو ظفر کو ایک استاد کی تلاش تھی۔ ظفر کو ذوق کی غزل بہت پسند آئی اورانہوں نے ذوق کو 4 روپیہ ماہانہ پر اپنا استاد مقرر کر دیا۔

حالانکہ یہ بہت ہی چھو ٹی رقم تھی لیکن ذوق نے قبول کر لی۔ بعد میں انھوں نے بادشاہ اکبر شاہ ثانی کی شان میں ایک قصیدہ پڑھا جس کے عوض میں انھیں ’خاقانیٔ ہند‘ کے خطاب سے نوازا گیاوہ اس وقت 19 سال کے تھے۔ بعد میں جب ابوظفر بادشاہ بنے تو ذوق ان کے ملک الشعراء بنے۔ ان کی تنخواہ بڑھا کر 100 روپے کردی گئی۔ 1854 میں ان کا انتقال ہوا اور قدم شریف کے پاس ایک قدیمی قبرستان جس کو کلو کا تکیہ کہتے تھے (تکیہ ایک صوفی بزرگ کی رہائش گاہ کو کہا جاتا ہے) میں ان کو دفن کیا گیا ،ان کی قبر کے تعویز پر تاریخ (chronogram)خود بہادر شاہ نے کہی تھی ۔ آج وہ سب کھو گیایا فقط نشانی رہ گئی ہے:

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Sep 2017, 9:00 PM