ہندوستان کا پہلا چینی نژاد اردو شاعر ’شیدا چینی‘... جمال عباس فہمی

شیدا چینی اقبال اور غالب کی شاعری کے شیدا تھے لیکن ان کی شاعری پر ان اساتذہ کی چھاپ کم ہی نظر آتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>شیدا چینی</p></div>

شیدا چینی

user

جمال عباس فہمی

شیدا چینی نام سننے میں بڑا عجیب سا لگتا ہے۔ لیکن یہ چینی واقعی اردو کا شیدا ہے۔ یہ نسل کے اعتبار سے بھی چینی ہے۔ ناک نقش کے لحاظ سے بھی چینی ہے اور اس کی مادری زبان بھی چینی ہے، لیکن اردو کا عاشق ہے اردو ہی اس کا اوڑھنا بچھونا رہی، اردو میں شاعری کی۔ 'لکیروں کی صدا' کے عنوان سے اس کی شاعری کا مجموعہ منظر عام پر آیا۔ شیدا چینی کے ساتھ زیادتی یہ ہوئی کہ ہند-چین جنگ کے دوران اس کی حب الوطنی پر شک کیا گیا اور اسے نظر بندی کا عذاب جھیلنا پڑا۔ اسے اردو ادب میں اس کا جائز مقام بھی نصیب نہیں ہوا۔ شیدا چینی کی زندگی کے اتار چڑھاؤ، اردو سے اس کے عشق اور شاعری پر تفصیل سے گفتگو کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شیدا چینی کے خاندانی پس منظر اور تعلیم و تربیت کے سلسلے میں معلومات حاصل کی جائے۔

 شیدا چینی کا اصل نام Liu Yung Ven لیو ینگ ون تھا۔ ان کی پیدائش کلکتہ میں چینی نژاد والدین کے گھر میں 10 جون 1931 میں ہوئی۔ ان کے والد Liu Chao Chen لیو چھاؤ چھین دانتوں کے ڈاکٹر تھے۔ ماں Chen Sheh چھن شہ گھریلو خاتون تھیں۔ دونوں چینی نسل تھے۔ ان کی مادری زبان چینی تھی لیکن گھر سے باہر عام ہندوستانی اور بنگالی زبان بولا کرتے تھے، 1934 میں وہ ہجرت کرکے جمشید پور آگئے تھے۔ معاشی حالت اچھی نہ ہونے کے سبب والدین نے لیو ینگ ون اور ان کے بھائی کو اردو میڈیم اسکول میں داخل کرا دیا۔ اردو میڈیم اسکول میں داخلہ لیو ینگ ون کے لئے اردو سے عشق کا پیغام لے کر آیا۔ ابتدا میں ان کو اردو لکھنے اور پڑھنے میں بہت پریشانی ہوتی تھی۔ غلطیوں پر استاد کی سخت سست بھی سننے کو ملتی تھی لیکن چند مہینوں کی محنت کے بعد ہی لیو ینگ ون نے اردو پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ اردو شعرا کو پڑھ کر شاعری کی جانب ان کا رجحان بڑھتا چلا گیا۔ انہوں نےاسکول اور کالج میں بیت بازی (بیت بحثی) کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس کے لئے انہوں نے مختلف شعرا کے سیکڑوں اشعار از بر کر لئے۔ اردو سے عشق کے ابتدائی دور میں ہی انہوں نے اپنا ایک قلمی نام 'یاسین چشم' ایجاد کرلیا تھا۔ بعد میں وہ انگلیش میڈیم اسکول میں داخل ہو گئے لیکن اردو کا عشق ان کے سر چڑھ کو بولتا رہا۔


16 برس کی عمر میں انہوں نے نظمیں لکھنا شروع کر دی تھیں۔ ان کی پہلی نظم ڈھاکہ سے شائع ہونے والے جریدے 'نظم' میں شائع ہوئی تھی۔ انہوں نے جمشید پور کے استاد شاعر بی زیڈ مائل کو اپنا کلام بغرض اصلاح دکھانا شروع کر دیا۔ بی زیڈ مائل ایک کہنہ مشق شاعر تھے۔ ترقی پسند مصنفین میں شامل تھے۔ ان کا اردو اور فارسی شاعری کا وسیع مطالعہ تھا۔ ان کی شاگردی نے شیدا چینی کی شاعری میں نکھار پیدا کر دیا۔ اس درمیان وہ اردو کے شیدا اور چینی نسل ہونے کے سبب شیدا چینی کے نام سے مشہور ہوچکے تھے۔ جب وہ KMPM انٹر کالج میں زیر تعلیم تھے تب سے انہوں نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ کسی چینی نژاد کو اردو اشعار پڑھتے دیکھ کر لوگ خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ شیدا چینی مشاعروں کا اہم حصہ بنتے چلے گئے۔ ان کی شاعری کا ابتدائی دور ترقی پسندوں کے عروج کا دور تھا اس لئے وہ بھی اس کے اثر میں آئے لیکن جلد ہی اس کی گرفت سے آزاد بھی ہو گئے۔ شیدا چینی اقبال اور غالب کی شاعری کے شیدا تھے لیکن ان کی شاعری پر ان اساتذہ کی چھاپ کم ہی نظر آتی ہے۔ جمشید پور اور قرب و جوار کے مشاعروں میں ان کی شرکت مشاعروں کی کامیابی کی ضامن بن چکی تھی۔ شیدا نے پہلی غزل 1951 میں کہی۔ جس کا مطلع یہ تھا۔

ملتے ہیں جہاں ارباب الم اک جشن طرب ہو جاتا ہے

ہر نالہ و آہ و جور و ستم عشرت کا سبب ہو جاتا ہے

 کلکتہ کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں تو شیدا چینی نے اپنی غزل سے دھوم مچا دی تھی۔ اس مشاعرے میں عندلیب شادانی، آل احمد سرور اور پروفیسر خواجہ احمد فاروقی جیسے جید شعرا موجود تھے۔ شیدا چینی کی جس غزل نے مشاعرہ لوٹا اس کے کچھ اشعار یہ ہیں۔

کھل بھی جاؤ کہ لوگ کہتے ہیں

بے سبب برہمی نہیں ہوتی

حوصلہ چاہئے محبت میں

بزدلی عاشقی نہیں ہوتی

لذت گفتگو نہیں ملتی

بات جب آپ کی نہیں ہوتی

زندگی آشنا نہ ہو جب تک

شاعری شاعری نہیں ہوتی


پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ شیدا چینی کی زندگی میں کٹھن دور چین-ہند جنگ کے دوران آیا۔ جس نے ان کی زندگی اور شاعری کو بہت متاثر کیا۔ ہر محب وطن ہندوستانی کی طرح شیدا چینی نے بھی چین کی جارحیت کے خلاف احتجاج کیا۔ انہوں نے نہ صرف اپنی شاعری کے ذریعے بلکہ جلسوں اور جلوسوں میں پیش پیش رہ کر ہندوستان پر چین کے حملے کی مذمت کی۔ انہوں نے اپنی نظم 'مزدور آواز' کے ذریعے چین کی وسعت پسندانہ پالیسی کی مذمت کی۔ اس سب کے باوجود ان کی حب الوطنی پر شک کیا گیا۔ انہیں نظر بند کر دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ کبھی چین نہیں گئے۔ چین میں موجود ان کا کوئی رشتے دار کبھی ان سے ملنے کے لئے نہیں آیا۔ اس کے باجود ان کو شک کی نظر سے دیکھا گیا۔

اس پورے واقعہ کا افسوسناک ترین پہلو یہ ہے کہ اردو کے کسی بھی اہل قلم نے شیدا چینی کے ساتھ ہونے والے سلوک کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ ان کے تمام احباب اور ملنے جلنے والوں نے ان سے قطع تعلق کرلیا۔ حب الوطنی پر شک کیا جانا اور احباب کا ترک تعلق کرلینا شیدا چینی کے لئے سوہان روح تھا۔ نظر بندی کے خاتمے کے بعد وہ گوشہ نشین ہو گئے۔ مشاعروں میں شرکت کرنی بند کر دی۔ انہوں نے شاعری بھی تقریباً ترک کردی تھی لیکن پھر کچھ احباب کے قریب آنے اور ان کے ٓ اصرار پر شیدا چینی شاعری بھی کرنے لگے اور مشاعروں میں شریک بھی ہونے لگے۔ شیدا چینی کو دوسرا جذبانی جھٹکا جمشید پور کے بھیانک فرقہ وارانہ فسادات سے لگا۔ ایک سیکولر سوچ اور پہلو میں درد مند دل رکھنے والے شیدا چینی کے لئے یہ فساد روح کو تڑپانے والا تھا۔


 چینی حملے، اپنی حب الوطنی پر شک اور فرقہ وارانہ فسادات کا کرب ان کے اشعار میں جا بجا جھلکتا ہے۔

نازاں ہو لاکھ بوئے وفا پر کلی کلی

 کانٹے بچھے ہوئے ہیں گلابوں کے شہر میں

.....

مصیبت میں وفا کی آزمائش کی گھڑی آئی

پرایا کون ہے اب کون اپنا ہم بھی دیکھیں گے

.....

مری وفا جو کبھی سر بلند ہوتی ہے

وہ تیغ جور و ستم بے نیام کرتے ہیں

.....

گنہ میرے مقدر میں نہیں تھا

یہ کیسی بے گناہی کی سزا ہوں

.....

تختہ گل مجھے ملا نہ ملا

غم کے اعزاز مل گئے لیکن

.....

اور مشق ستم ذرا اے دوست

دل میں اب تک قرار باقی ہے

.....

جب کبھی تیغ ستم کی زد میں آئی ہے وفا

ہو گئے سینہ سپر ہم جاں نثاروں کی طرح

.....

جلوہ صبح سے داغ شب رفتہ نہ گیا

تیرگی کے بھی نشاں ملتے ہیں تنویر کے ساتھ

شیدا چینی کے پاس مشاہدات اور تجربات کی پوری دنیا ہے۔ ان کی زندگی خود ایک مثال ہے۔ شاعر اگر ان تجربات کو شعوری سطح پر فنکاری کے ساتھ برتے تو اس کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موضوعات کے تنوع کی کمی کے باوجود شیدا چینی نے اپنی شاعری میں زندگی کو سمو دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کی شاعری میں صبح فردا کی امید اور حالات کو بدل ڈالنے کا عزم نظر آتا ہے۔

رسم محفل ہی نہیں نظم جہاں بدلیں گے

ہم تو یہ کارگہ شیشہ گراں بدلیں گے

حسن تدبیر کے اعجاز پہ ایماں رکھو

 تیرہ بخشی زمانہ کے نشاں بدلیں گے

.....

یہ ادائے زندگانی نہ اگر کسی کو بھائے

 کوئی نقش نو ابھارے کوئی شمع نو جلائے

.....

آرہی ہے بہار نو اٹھو

 خیر مقدم کا اہتمام کرو

.....

وقت کا اب یہی تقاضہ ہے

جبہ سائی نہیں قیام کرو


شیدا چینی نے اساتذہ کی برتی ہوئی زمینوں میں بھی سخن کے پھول کھلائے ہیں۔ میر تقی میر کی ایک مشہور غزل کی زمین میں شیدا چینی نے بھی خوبصورت اشعار نظم کئے۔

یوں تو خانہ خراب کی سی ہے

 زندگی آفتاب کی سی ہے

غم کا اک باب، اک مسرت کا

 میری ہستی کتاب کی سی ہے

اس کی تعبیر جانے کیا ہوگی

 جو ملاقات خواب کی سی ہے

تو نے دیکھا تو ہوگا اے قاصد

ان کی صورت گلاب کی سی ہے

چین ملتا نہیں کسی پہلو

 کیفیت اضطراب کی سی ہے

 ایسی شے پر غرور کیا معنیٰ

 زندگی تو حباب کی سی ہے

ان کے ساتھ اور بھی زیادتیاں ہوئیں۔ ان کی شاعری ان کی بیاض اور مشاعروں تک محدود تھی اخبارات اور رسائل نے ان کے کلام کو بہت کم شائع کیا۔ اردو ناقدوں نے بھی انہیں نظر انداز کیا، البتہ ایک اہم کام کریم سٹی کالج کے شعبہ 'ماس کام' نے یہ کیا کہ شیدا چینی کی زندگی اور ادبی خدمات پر ایک ڈاکیو مینٹری فلم بنا دی۔ اگر کوئی اردو اس کالر شیدا چینی کی حیات اور شاعری پر کچھ کام کرنا چاہے تو یہ ڈاکیو مینٹری فلم اس کے بہت کام آئے گی۔


انجمن ترقی اردو جمشید پور نے شیدا چینی کو 2003 میں ادبی خدمات کے لئے 'فراق گورکھپوری ایوارڈ' سے نوازا۔ ہندی ساہتیہ سمیلن جمشید پور نے 'تلسی داس ایوارڈ' اور رانچی کالج رانچی کی 'بزم ادب' نے انہیں اپنی لائف ٹائم ممبر شپ کا اعزاز بخشا۔ 6  مارچ 2015 کو دنیا سے رخصت ہونے والے شیدا چینی کو ان کے جیتے جی تو وہ مرتبہ اور مقام نہیں مل سکا جس کے وہ مسحق تھے،  شاید مستقبل میں کسی اردو اسکالر کو ان کے اوپر کام کرنے کا خیال آجائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔