نرم لب و لہجہ کا شاعر ساجد رضوی حیدر آبادی

ساجد رضوی کا حقیقی نام میر رضا علی رضوی تھا، وہ 12 جنوری 1930 کو حیدر آباد میں ایک سید گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کے والد سید بہادر حسینی بھی شاعر تھے اور طیار کے زیر تخلص شاعری کرتے تھے۔

<div class="paragraphs"><p>ساجد رضوی حیدر آبادی</p></div>

ساجد رضوی حیدر آبادی

user

جمال عباس فہمی

دبستان دکن کوعزت و احترام بخشنے والے شاعروں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کا شاعر ایسا بھی ہے جس نے جب اپنے منفرد اسلوب کے ساتھ غزلیں کہنا شروع کیں تو اسے ناقدان ادب نے ’دبستان دکن کی آخری منزل کا شاعر‘ قرار دیا اور جب اس نے محمد و آل محمد کے عشق میں سرشار ہو کر شاعری کی تو اسے ’شاعر مودت‘ کہا گیا۔ اس شاعر نے اپنے کلام کے سات ایسے مجموعے چھوڑے جنہوں نے اردو شعر و ادب کو ثروت بخشی۔ وہ ایسا شاعر تھا جس کے کلام کی فنی پرکاریوں کا اقرار اس کے اساتزہ نے کیا جو کسی بھی شاگرد کے لیے فخر کا مقام ہے۔ جی ہاں اس شاعر کو دنیائے شعر و سخن ساجد رضوی کے نام سے جانتی ہے۔ ساجد رضوی کی شاعرانہ عظمت اور ان کی شاعری کی خصوصیات کا تفصیل سے ذکر کرنے سے پہلے ان کی زندگی، خاندانی پس منظر اور تعلیم و تربیت کے مراحل کا سرسری طور سے ہی سہی جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

ساجد رضوی کا حقیقی نام میر رضا علی رضوی تھا۔ وہ 12 جنوری 1930 کو حیدر آباد میں ایک سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید بہادر حسینی بھی شاعر تھے اور طیار کے زیر تخلص شاعری کرتے تھے۔ ساجد رضوی کے جد اعلیٰ سید کاظم حسین رضوی رسوا بھی اپنے دور کے کہنہ مشق شاعر تھے۔ کاظم حسین رضوی میر، مومن، استرآبادی کے دور میں ایران کے مقدس شہر مشہد سے ہجرت کر کے حیدر آباد میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔ میر، مومن، ابراہیم، قلی قطب شاہ کے دور کے جید عالم دین کے ساتھ ساتھ فن تعمیرات اور عملیات کے بھی ماہر تھے۔ حیدر آباد کے مشہور چار مینار اور مکہ مسجد کے نقشے اور تعمیرات میں ان کا کلیدی کردار تھا۔ ساجد رضوی نے ابتدائی تعلیم دار الشفا اور دار العلوم ہائی اسکول سے حاصل کی۔ گھر کے مذہبی، علمی اور ادبی ماحول نے بچپن سے ہی ان کی فکر کو متاثر کرنا شروع کر دیا تھا۔ محض 14 برس کی عمر میں وہ شعر موزوں کرنے لگے تھے۔ ساجد رضوی نے اپنے دور کے تین جید اور استاد شعرا حکیم میر ثامن علی نیساں، علامہ ناصر زید پوری اور علامہ نجم آفندی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کر کے ان سے سخن گوئی کی باریکیاں سیکھی تھیں۔


جہاں تک روزگار اور ملازمت کا تعلق ہے تو اپنی درویشانہ خصلت کی وجہ سے وہ کسی ایک ملازمت سے زیادہ عرصہ تک خود کو پابند نہ رکھ سکے انہوں نے پولیس محکمے سمیت کئی سرکاری شعبوں میں ملازمت کی۔ انہوں نے ایک دور میں زراعت بھی کی لیکن ہمیشہ معاشی مسائل سے نبرد آزما رہے۔ ساجد رضوی ایک طویل عرصہ تک معظم جاہ بہادر کے دربار سے بھی وابستہ رہے اور صاحب بہادر کو اپنی فکری جولانیوں سے کسب فیض کا موقع دیتے رہے۔ انہوں نے ایک زمانہ میں ادبی ماہنامہ ’گلزار‘ بھی شائع کیا تھا۔ 10 برسوں تک وہ اس کو بلا ناغہ شائع کرتے رہے۔

جہاں تک ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا معاملہ ہے تو ان کا لوہا خود ان کے اساتذہ نے مانا۔ ساجد رضوی کی شاعری کی خصوصیات پران کے استاد علامہ نجم آفندی کا یہ تبصرہ بہت اہم ہے ’’مضمون آفرینی، جدت طرازی، لطف زبان و بیان ہر حیثیت سے ساجد رضوی کا انداز فکر مجھے پسند ہے... ساجد رضوی کا مستقبل اہل نظر کے لیے بہت روشن اور تابناک ہے۔‘‘


علامہ ناصر زید پوری کی رائے ان کی شاعری کے بارے میں یہ ہے کہ ’’ان کے کلام میں جہاں بندش کی چستی اور بے پناہ روانی ہے وہیں ندرت خیال نے انہیں روش عام سے ہٹا کر ایک ایسی منزل کا سالک بنا دیا ہے کہ جہاں کردار سازی اور سیرت نگاری کے چراغ روشن ہیں۔‘‘ ساجد رضوی کی شاعری پر یہ تبصرہ تو ان کے اساتذہ کا تھا۔ جدید اردو ادب کے ناقد پروفیسر مغنی تبسم ساجد رضوی کی شاعری کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ ’’ان کی غزلیہ شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مسائل تصوف کا نہ صرف گہرا ادراک رکھتے تھے بلکہ مزاجاً بھی ایک صوفی تھے اور اپنی صوفیانہ واردات کو شعر کے قالب میں ڈھال دیتے تھے۔ زبان اور فن پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ ساجد رضوی کی شاعری اپنی تمام تر جمالیات کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔‘‘

ساجد رضوی نے اپنی شاعری میں نامانوس تراکیب اور بندشوں سے اجتناب کیا۔ انہوں نے سادہ اور عام فہم زبان میں فلسفے کی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی۔

خرد دیوانگی کی منزلوں تک آ نہیں سکتی

اگر آ بھی گئی تو راز ہستی پا نہیں سکتی

---

ان کی شاعری میں کہیں کہیں تصوف کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔

مجھ کو نشاط عیش دو عالم نہیں قبول

دو دن کی زندگی ہے غم معتبر ملے


ان کا شعری احساس انسانی جذبات کے اظہار سے عبارت ہے۔ حسن و عشق کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی شاعری سادگی اور پرکاری سے مزین ہے۔ اچھی شاعری کی جو خصوصیات اور میعارات ناقدان ادب نے طے کہے ہیں ساجد رضوی کی شاعری ان تمام خصوصیات اور میعارات پر کھری اترتی ہے۔ ان کی شاعری کی ایک بڑی خوبی سادگی اور پرکاری ہے۔ ساجد رضوی کی غزلیہ شاعری میں سلاست، موسیقیت اور کلاسیکیت کی خوشبو رچی بسی ہے۔ ان کے اشعار میں زندگی کی رعنائیناں بھی ہیں اور غم و یاس کی پہنائیاں بھی ہیں۔

شادمانی کا تلاطم ہے دل ناشاد میں

کھیلتی ہے زندگی مجموعہ اضداد میں

---

اک عمر گلوں کے سائے میں گزری تو سمجھ میں بات آئی

گلشن کی فضا میں کانٹوں سے دامن کا بچانا کھیل نہیں

---

آج ہنستے ہوئے وہ رخ سے الٹتے ہیں نقاب

آج خطرے میں نظر آتے ہیں ایماں کتنے

موج در موج تلاطم ہے خدا خیر کرے

اک سفینہ کے لیے اٹھے ہیں طوفاں کتنے

---

وہ روداد غم پر بہت مسکرائے

مگر پھر بھی آنکھوں میں آنسو بھر آئے

---

تیری جستجو میں ہم گھر سے جب نکلتے ہیں

منزلیں بھی چلتی ہیں راستے بھی چلتے ہیں

---

ہم تو سنا کے غم کا فسانہ چلے گئے

سنتے ہیں دیر تک ترے لب پر ہنسی رہی

---

کچھ بھید کھل سکا نہ گلستاں کا آج تک

نظریں بدل گئیں کہ نظارے بدل گئے

---

مجھ سے سیکھے کوئی سجدوں کا سلیقہ ساجدؔ

ہو گئے نقش قدم ان کے نمایاں کتنے

دکن کے ادبی میدان میں ساجد رضوی کے قد کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر سید جعفر حسین نے ساجد رضوی کی شخصیت اور ادبی خدمات پر ایم فل کا مقالہ لکھ کر ان کی شاعرانہ عظمت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔


غزلیہ شاعری سے مدحیہ شاعری کی جانب مائل ہونے کا سفر ساجد رضوی نے رات کے چند گھنٹوں میں طے کر لیا تھا۔ انہیں غزل کے ایک طرحی مشاعرے میں مدعو کیا گیا۔ وہ طرحی مصرعے پر غزل کہنے بیٹھے لیکن ان کی طبیعت بجائے غزل کے نعت کی طرف مائل ہو گئی اور دیکھتے دیکھتے انہوں نے نعت کے 20 اشعار نظم کر لیے۔ اس کے بعد سے ان کی شاعری ادب کے دو دھاروں میں تبدیل ہو گئی۔ غزلوں کے ساتھ ساتھ وہ نوحے، سلام اور منقبتیں بھی نظم کرنے لگے۔ ان کا غزلیہ اور مدحیہ کلام ملک کے موقر اخبارات و رسائل کی زینت بننے لگا۔ ان کی مدحیہ شاعری کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ شمالی ہند میں ان کا کلام پیش کر کے خوش لحن افراد محفلیں لوٹ لیا کرتے تھے۔ ان کی نظم کردہ ایک منقبت نے تو دہلی میں دھوم مچا دی تھی۔ اس منقبت کا مطلع یہ ہے۔

نبی کی آزمودہ قوتوں سے کام لیتا ہوں

 سنبھل اے گردش دوراں علی کا نام لیتا ہوں

---

ساجد رضوی شہیدان کربلا اور ائمہ اطہار کی محبت کے جذبے سے سرشار تھے۔

مل کے اپنے چہرہ اقدس پہ خون بے گناہ

سرخ رو دین خدا کو کر دیا شبیر نے

---

تھا جو کار اجتماعی انبیا کا اے حسین

تو نے اک دن میں کیا وہ کام تنہا اے حسین

---

یاد علی میں سجدہ خالق ادا کیا

ساجد یہ عشق کی ہے تووہ بندگی کی بات

---

مشرق سے روز گوشہ مغرب تک آفتاب

پھرتا ہے نقش پائے علی ڈھونڈتا ہوا

---

تری تسبیح کی گردش سے تقدیریں بدلتی ہیں

محبوں نے یہ ہر مشکل میں دیکھا فاطمہ زہرا

ساجد رضوی کے نظم کردہ کچھ نوحے تو اتنے مقبول ہوئے کہ آج بھی وہ حیدر آباد کی عزاداری کا جزو لاینفک ہیں۔ حیدر آباد میں شام غریباں کی مرکزی مجلس میں یہ نوحہ عزاداروں کے دل تڑپا دیتا ہے۔

دل بجھا بجھا سا ہے ہائے کیا ہوئے شبیر

ہر طرف اندھیرا ہے ہائے کیا ہوئے شبیر

حیدر آباد کی ماتمی انجمنیں ساجد رضوی کے ان نوحوں کو آج بھی پڑھتی ہیں۔

بولے سجاد کیا غم دکھائے پیاری بہنا

بھائی اور ترا لاشہ اٹھائے پیاری بہنا

---

بولے سرور مرے مقصد کو بچانا زینب

بے ردا شام کے دربار میں جانا زینب

دبستان دکن کے شعری اثاثے کو مالامال کرنے والے ساجد رضوی 11 مارچ 1991 کو دار فانی سے کوچ کر گئے۔ جدید لب و لہجے کے شاعر ان کے فرزند فراز رضوی اب ان کی ادبی وراثت سنبھالے ہوئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔